Headlines
Loading...
کیا بلی کی خرید و فروخت جائز ہے؟

کیا بلی کی خرید و فروخت جائز ہے؟

Question S. No. #31

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا بِلِّی کی خرید و فروخت جائز ہے؟ اور کیا حدیث پاک میں بلی کی بیع سے منع فرمایا گیا ہے؟ اس کی وضاحت فرما دیں۔

المستفتی: ابو ذر عطاری، کانپور

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

بلی کی خرید وفروخت جائز ہے جیسا کہ کتب فقہ میں اس کی صراحت موجود ہے عالمگیری میں ہے:

بَيْعُ السِّنَّوْرِ وَسِبَاعِ الْوَحْشِ وَالطَّيْرِ جَائِزٌ عِنْدَنَا مُعَلَّمًا كَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. [مجموعة من المؤلفين، الفتاوى الهندية، ۱۱۴/۳]

اسی طرح رد المحتار، محیط برہانی اور بہار شریعت میں بھی ہے۔

حدیث پاک میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ یا تو اُس بلی کے تعلق سے ہے جو نفع نہ دے یا یہ کہ منع تنزیہی ہے جیسا کہ شروحات حدیث میں موجود ہے، مرقات شرح مشکوٰۃ میں ہے:

(وَعَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَالسِّنَّوْرِ) : بِتَشْدِيدِ السِّينِ الْمَكْسُورَةِ وَالنُّونِ الْمَفْتُوحَةِ وَهُوَ الْهِرُّ، فِي شَرْحِ السُّنَّةِ: هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى مَا لَا يَنْفَعُ، أَوْ عَلَى أَنَّهُ نَهْيُ تَنْزِيهٍ لِكَيْ يَعْتَادَ النَّاسُ هِبَتَهُ وَإِعَارَتَهُ وَالسَّمَاحَةَ بِهِ، كَمَا هُوَ الْغَالِبُ، فَإِنْ كَانَ نَافِعًا وَبَاعَهُ صَحَّ الْبَيْعُ وَكَانَ ثَمَنُهُ حَلَالًا. [الملا على القاري، مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ١٨٩٧/٥]

مرأة المناجیح میں ہے:

یا تو کتے بلی سے مراد غیر نافع کتے بلی ہیں جیسے دیوانہ کتا،وحشی بلی کہ اگر اسے باندھ کر رکھو تو چوہوں کا شکار نہ کرسکے اور اگر کھول دو تو بھاگ جائے اور یا مطلقًا کتا بلی مراد ہے اور نہی کراہت تنزیہی کے لیے ہے یعنی ان کا فروخت کرنا غیر مناسب ہے، یہ جانور تو یوں ہی بطور ہبہ دے دینا چاہئیں۔ (مرآت المناجیح ج: ۴ ص: ۲۵۲، نعیمی کتب خانہ گجرات) واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه: بلال رضا عطاری
متعلم: جامعۃ المدینہ، نیپال
۱۵ چھ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح: مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.