Headlines
Loading...
جب حضرت امیر معاویہ نے یزید کو خلیفہ بنایا تھا تو حضرت امام حسین نے بیعت کیوں نہیں کی؟

جب حضرت امیر معاویہ نے یزید کو خلیفہ بنایا تھا تو حضرت امام حسین نے بیعت کیوں نہیں کی؟

Question S. No. #88

سوال: جب امیر المومنین حضرت معاویہ رضی الله تعالی عنہ نے یزید کو اپنا خلیفہ بنایا تو حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما کو یزید کی بیعت ضرور کرنی چاہیے تھی۔ کیوں کہ جناب امیر المومنین حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے یہ خلافت تفویض فرمائی تھی اور خلیفہ وصیت سے بھی ہوتا ہے اور اجماع سے بھی اور استعلا سے بھی اور یزید تینوں طرح سے خلیفہ تھا، تو حضرت حسین ابن علی رضی اللہ تعالی کو انکی بیعت کرنی چاہئے تھی ورنہ الزام بغاوت ان پر قائم کیا جائے گا۔
المستفتی: الہام شاہ، ورائے جنیٹہ ضلع مرادآباد

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب: حضرت امام حسن رضی الله تعالی عنہ کی خلافت اس خلافت راشدہ سے ہے جس کی مقدار خود حضور اکرم صلی الله تعالی علیہ وسلم نے حدیث شریف میں بیان فرمادی ہے۔

خلافة بعدی ثلاثون سنة

یعنی میرے بعد خلافت تیس سال تک ہے۔ تو خلفاے راشدین کی چاروں خلافتوں میں تیس سال کی مقدار پوری ہونے میں 6 ماہ 6 ایام کم تھے انہیں 6 ماہ اور کچھ ایام تک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے امور خلافت انجام دیے، اسی بنا پر حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنه آخر الخلفاء الراشدین کہلاتے ہیں۔ پھر تیس سال کے بعد خلافت بمعنی امامت و ملک گیری کے کہلانے لگی تو حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ حضرت امام حسن رضی الله تعالی عنہ سے صلح کرنے کے بعد بالاتفاق خلیفہ برحق قرار پائے۔

اس کے بعد جو حضرت امیر معاویہ رضی الله تعالی عنہ کو خلیفہ نہ مانے وہ خارق اجماع مسلمین اور حضرت امام حسن رضی الله تعالی عنہ کا مخالف ودشمن ہے بلکہ درحقیقت اس میں شائبہ رفض ہے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یزید پلید کے فسق و فجور پر مطلع نہیں تھے اور انہیں اس کے عیوب کا علم نہیں تھا اور یہ اپنی بدعملی اور فسق و فجور کو ان سے چھپاتا رہا اور ان کے پاس ایسے لوگ بھیجتا رہا جو اس کے حسن عمل کا ذکر کیا کرتے تھے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے حسن عمل پر اعتماد کر کے اسے اپنا ولی عہد اور اپنے بعد میں خلیفہ بنادیا۔ اور اگر انہیں اس کے فسق و فجور کی کوئی ادنی بات معلوم ہو جاتی تو وہ اسے اپنی ولی عہد کیسے ہرگز ہرگز تجویز نہیں فرماتے حضرت علامہ ابن حجر تطہیر الجنان واللسان میں فرماتے ہیں:

وزین له من يزيد حسن العمل وعدم الانحراف و الخلل كل ذلك لما أشار إليه الصادق المصدوق صلی الله تعالى عليه وسلم من أنه إذا أراد الله إنفاذ أمره سلب ذوي العقول عقولهم حتى ينفذ ما أراده تعالی فمعاویة معذور فيما وقع منه ليزيد لأنه لم يثبت عنه نقص فيه بل كان يزيد يدس على أبيه من يحسن له حاله حتى اعتقد أنه اولی من أبناء بقية أولاد الصحابة كلهم فقدمه عليهم مصرحا بتلك الأولوية (وفيه أيضا) ولو ثبت عنده أدنى ذرة مما يقتضی فسقه بل إثمه لم يقع منه ما وقع (هامش الصواعق المحرقة مصري ص ٥٣)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کے استخلاف کے بعد یہ خطبہ دیا جس کو تاریخ الخلفاء نے نقل کیا۔

خطب معاوية فقال اللهم إن كنت عهدت ليزيد لما رأيت من فضله فبلغه ما أملت و أعنه وإن كنت إنما حملنی حب الوالد لولده وأنه ليس لما صنعت به أهلا فاقبضه قبل أن يبلغ ذالك. (تاریخ الخلفا ص: ٤٠)

ترجمہ: حضرت معاویہ نے خطبہ پڑھا اور یہ دعا کی اے اللہ میں نے یزید کو ولی عہد اگر اس کے فضل کو دیکھ کر کیا ہے پس اسے تو میری امید تک پہونچا اور اسکی مدد فرما اور اگر محبت پدری نے مجھے اسکے لئے ابھارا تھا اور وہ میری ولی عہدی کا اہل نہیں ہیں تو اسے اس منصب پر پہونچنے سے پہلے ہی موت دیدے۔

اب ان عبارات سے ثابت ہوگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس یزید کے استخلاف میں معذور ہیں۔ ان پر شرعاً کوئی مواخذہ نہیں کیا جاسکتا لیکن جن لوگوں پر اسکا فسق و فجور ثابت ہو چکا تھا تو وہ ایسے فاسق و فاجر کی کس طرح بیعت کرتے اور اسے کیوں اپنا خلیفہ مانتے۔ حضرت امام حسین رضی الله عنہ بھی انہیں حضرات میں سے تھے جن پر یزید کا فسق وفجور ثابت ہو چکا تھا۔ تو حضرت امام کا تقویٰ انہیں یہ اجازت ہی نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اپنی جان کی خاطر ایسے نا اہل فاسق و فاجر کے ہاتھ پر بیعت کریں اور اہل اسلام کی تباہی اور شرع واحکام دین کی بے حرمتی کی پرواہ نہ کریں۔

حضرت امام حسین فاسق کی بیعت کر لیتے تو اسلام کا نظام درہم برہم ہو جاتا اور یزید کی ہر بدکاری کے جواز کے لئے بیعت سند ہو جاتی۔ اور شریعت اسلامیہ وملت حنفیہ کا نقشہ ہی مٹ جاتا تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری کا یہی اقتضا تھا کہ وہ یزید جیسے فاسق و فاجر کی بیعت نہ کریں مگر سائل کی یہ بڑی دلیری اور سخت نادانی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ حضرت امام حسین رضی الله عنہ کو یزید کی بہت ضرور کر نی چاہیے تھی اسکی اس سے زائد جرات اور انتہائی لا علمی یہ ہے کہ وہ یہ بکواس کرتا ہے کہ حضرت امام پر اسکی بیعت نہ کرنے کی بنا پر الزام بغاوت قائم کیا جائے گا۔ لہذ اسوال کا لب و لہجہ یہ پتا دیتا ہے کہ سائل غالباً خارجی ہے۔

اب باقی رہا سائل کا یہ قول کہ خلیفہ وصیت سے بھی ہوتا ہے اور اجتماع سے بھی اور استعلا سے بھی اور یزید تینوں طرح خلیفہ ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یزید کو تجویز کرنا، جب یہ استخلاف اس کے حال کی لاعلمی یا خطاے اجتہادی کی بنا پر ہوا تو ان کی وصیت کو خلافت یزید کے لیے دلیل قطعی قرار دینا کافی نہیں۔

اسی طرح خلافت یزید اجماع سے بھی ثابت نہیں کہ جب حضرت امام حسین۔ حضرت عبداللہ بن زبیر حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہم جیسے بکثرت صحابہ اس خلافت کے مخالف تھے تو اجماع کا وجود ہی متحقق نہیں ہوا۔

اسی طرح سے صرف استعلا بھی کسی خلافت کو ثابت کرنے کے لیے کافی دلیل نہیں کہ پھر تو ہر متغلب مفقود شرائط خلافت بھی استعلاء کی بنا پر خلیفہ ثابت ہو جائے گا۔ لہذا خلافت یزید نہ وصیت سے ثابت ہوگی نہ اجماع سے نہ استعلا سے۔

بالجملہ حضرت امام حسین رضی اللہ علیہ ہرگز باغی نہیں تھے۔ ان پر بغاوت کا الزام اسی کے ذہن میں پیدا ہوگا جو خارجی سیرت ہو اور دشمن اہل بیت ہو۔ مسائل کا ان الفاظ میں ذکر کرنا بھی سوء ادبی ہے اور یزید پلید علیہ ما علیہ کے لئے اثبات خلافت کی سعی بے کار ہے جب اس کا اسلام ہی خطرہ میں ہے۔ والله تعالی اعلم بالصواب۔
کتبہ: سلطان المناظرین مفتی اجمل قادری رضوی علیہ الرحمہ

(ماخوذ از فتاویٰ اجملیہ، کتاب العقائد والکلام ج:۱، ص: ۲۹۳)

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.