Headlines
Loading...

Question S. No. #28

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حضور بعد سلام عرض یہ ہے کہ صلوٰۃ التسبیح کی نماز جماعت سے پڑھ سکتے ہیں کیا؟ اور جماعت میں لوگ تین سے زائد ہوں تو کیا کریں؟ آیا جماعت سے ادا کریں یا تنہا تنہا ادا کریں؟

ہمارے یہاں (آسام) کے علماے کرام جماعت سے پڑھنے کو منع فرماتے ہیں۔

المستفتی: تاج الدین

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

جماعت کے ساتھ نوافل ادا کرنے کی دو صورتیں ہیں: (۱) تداعی کے بغیر نفل کی جماعت کرنا۔ (۲) تداعی کے ساتھ کرنا۔

تداعی کا معنی ہے ”لوگوں کو جماعت کے لیے بلانا اور انہیں جمع کرنا“ اور اصح قول کے مطابق اگر امام کے علاوہ چار یا اس سے زائد مقتدی ہوں، تو یہ تداعی ہے اور اگر اس سے کم ہوں، تو تداعی نہیں، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ کی جلد ۷ صفحہ ۴۳۱، رضا فاؤنڈیشن، لاہور، پر مذکور ہے۔

اب دونوں صورتوں کا حکم ملاحظہ ہو:

(۱) تداعی کے بغیر نوافل کی جماعت کرنا جائز ہے۔

مجدد اعظم اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

جماعتِ نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا مذہب معلوم ومشہور اور عامۂ کتبِ مذہب میں مذکور ومسطور ہے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۷، ص: ۴۳۱، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

(۲) اگر نوافل کی جماعت تداعی کے ساتھ ہو، تونمازِ تراویح اور کسوف و استسقاء یعنی سورج گہن اور طلب بارش کے لیے پڑھے جانے والے نوافل بھی بلا کراہت جائز ہیں، جب کہ ان کے علاوہ دیگر نوافل بطورِ تداعی جماعت کے ساتھ ادا کرنا مکروہ تنزیہی خلافِ اولی ہے، ناجائز وگناہ نہیں۔

در مختار میں ہے:

يكره ذلك لو على سبيل التداعي، بأن يقتدي أربعة بواحد كما في الدرر. [الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار، صفحة ٩٥]

ترجمہ: تداعی کے طور پر نوافل کی جماعت مکروہ ہے، تداعی کا مطلب یہ ہے کہ چار شخص ایک کی اقتداء کریں جیسا کہ درر میں ہے۔

مجدد اعظم اعلی حضرت رحمة الله عليه فتاویٰ رضویہ میں ہے:

جماعتِ نوافل میں ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کا مذہب معلوم ومشہور اور عامہ کتب مذہب میں مذکور و مسطور ہے کہ بلا تداعی مضائقہ نہیں اور تداعی کے ساتھ مکروہ۔ تداعی ایک دوسرے کو بلانا جمع کرنا اور اسے کثرت جماعت لازم عادی ہے۔

بالجملہ دو مقتدیوں میں بالاجماع جائز اور پانچ میں بالاتفاق مکروہ اور تین اور چارمیں اختلاف نقل ومشائخ ،اور اصح یہ کہ تین میں کراہت نہیں، چار میں ہے، تو مذہب مختار یہ نکلا کہ امام کے سوا چار یا زائد ہوں تو کراہت ہے ورنہ نہیں۔

پھر اظہر یہ ہے کہ یہ کراہت صرف تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ لمخالف التوارث، نہ تحریمی کہ گناہ وممنوع ہو۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۷ ص: ۴۳۱، ۴۳۲، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:

نفل غیر تراویح میں امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی، چار کی نسبت کتبِ فقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں یعنی کراہت تنزیہیہ جس کا حاصل خلاف اولیٰ ہے نہ کہ گناہ وحرام۔ کما بیناہ فی فتاوٰنا (جیسا کہ ہم نے اس کی تفصیل اپنے فتاویٰ میں ذکر کردی ہے) (فتاویٰ رضویہ، ج: ۷ ص: ۴۶۶، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

البتہ اگر عوام صلوٰۃ التسبیح، صلوٰۃ التوبہ، تہجد یا دیگر نوافل جماعت کے ساتھ ادا کریں، تو انہیں منع نہ کیا جائے کہ عوام الناس کی رغبت نیکیوں کی طرف پہلے ہی کم ہے اب جو لوگ جماعت کی وجہ سے نوافل ادا کر لیتے ہیں، اگر انہیں بھی منع کر دیا جائے، تو بالکل ہی نوافل چھوڑ دینے کے امکان زیادہ ہیں۔ جیسا کہ مخفی نہیں، اسی وجہ سے فقہاء کرام رحمہم اللہ السلام نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:

بہت اکابر دین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کیے جائیں گے۔ علمائے امت و حکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے۔ ( فتاوی رضویہ، ج: ۷ ص: ۴۶۶، رضا فاؤنڈیشن، لاہور )

نماز عید سے پہلے گھر اور عید گاہ دونوں جگہ جبکہ نماز عید کے بعد فقط عید گاہ میں نوافل ادا کرنا مکروہ ہے، مگر علماء نے فرمایا کہ عوام اگر پڑھے تو اسے منع نہ کیا جائے کیونکہ عوام کی رغبت نیکیوں کی طرف پہلے ہی کم ہوتی ہے۔

در مختار میں ہے:

ولا يتنفل قبلها مطلقا (وكذا) لا يتنفل (بعدها في مصلاها) فإنه مكروه عند العامة وهذا للخواص، أما العوام فلا يمنعون من تكبير ولا تنفل أصلا لقلة رغبتهم في الخيرات، ان عليا رضي الله عنه رأى يصلي بعد العيد فقيل: أما تمنعه يا أمير المؤمنين؟ فقال: أخاف أن أدخل تحت الوعيد، قال الله تعالى: (أرأيت الذي ينهى عبدا إذا صلى)
[علاء الدين الحصكفي، الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار، صفحة ١١٢]

ترجمہ: نماز عید سے پہلے گھر اور عید گاہ دونوں جگہ اور عیدین کے بعد فقط عید گاہ میں نوافل ادا کرنا عامۃ الفقہاء کے نزدیک مکروہ ہے، لیکن یہ حکم خواص کے لئے ہے، بہر حال عوام کو تکبیرات اور ان نوافل سے بالکل منع نہیں کیا جائے گا کہ عوام کی پہلے ہی نیکیوں میں رغبت کم ہوتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک شخص کو نماز عید کے بعد (عید گاہ میں )نوافل ادا کرتے دیکھا ،تو ان سے عرض کی گئی: اے امیر المومنین آپ اسے منع کیوں نہیں کرتے؟ ارشاد فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس وعید میں نہ داخل ہو جاؤں کہ اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا: بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہے بندہ کو جب وہ نماز پڑھے۔

بلکہ حدیقہ ندیہ میں بعض نوافل جماعت کے ساتھ پڑھنے سے روکنے کو اخلاق مذمومہ میں سے شمار کیا گیا ہے:

ومن ھذا القبیل نهي الناس عن صلاۃ الرغائب بالجماعة وصلاۃ ليلة القدر ونحو ذلك وإن صرح العلماء بالكراهة بالجماعة فيها، لا یفتی بذلك للعوام لئلا تقل رغبتهم في الخيرات وقد اختلف العلماء فی ذلك ۔۔۔ صنف في جوازها جماعة من المتاخرین، فإبقاء العوام راغبین في الصلاة أولى من تنفيرهم منها. (حدیقہ ندیہ، ج: ۲ ص: ۱۵۰، مکتبہ نوریہ رضویہ، پاکستان)

ترجمہ: اخلاق مذمومہ کی قبیل سے یہ بھی ہے کہ لوگوں کو صلوٰۃ الرغائب باجماعت ادا کرنے اور لیلۃ القدر کی رات اور اسی طرح دیگر مواقع پر نوافل ادا کرنے سے منع کر دیا جائے، اگرچہ علما نے تصریح فرمائی ہے کہ باجماعت نوافل ادا کرنا مکروہ ہے مگر لوگوں کو اس کی کراہت کا فتوی نہیں دیا جائے گا تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، بلکہ علماے متاخرین نے تو اس کے جواز پر لکھا بھی ہے، لہٰذا عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہے۔

واضح رہے کہ نفل کی جماعت کے تعلق سے جو بھی کلام ہوا یہاں جماعت مکروہ تنزیہی ہے نہ کہ نماز۔ واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه: بلال رضا عطاری
متعلم: جامعۃ المدینہ، نیپال
۱۷ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح: مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

1 تبصرہ

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.