Headlines
Loading...
دو لوگ جانور ذبح کر رہے ہوں ایک بسم اللہ چھوڑدے تو کیا حکم ہے؟

دو لوگ جانور ذبح کر رہے ہوں ایک بسم اللہ چھوڑدے تو کیا حکم ہے؟

Question S. No. #39

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اگر دو لوگ ایک ساتھ جانور ذبح کریں اور ان میں سے ایک بسم اللہ چھوڑ دے تو جانور کا کیا حکم ہے؟

المستفتی: عبد مصطفیٰ

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

دو لوگوں کا مل کر ذبح کرنے کا مطلب اگر یہ ہے کہ ایک نے آدھا ذبح کیا اور آدھا دوسرے نے، یا ایک شخص دوسرے شخص کی ذبح کرنے میں مدد کر رہا ہو اس طرح کہ ذبح کرنے والے کے ساتھ چھری پر ہاتھ رکھ کر چھری چلائے اور دونوں کی قوت سے جانور ذبح ہو تو ایسی صورت میں دونوں پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اگر ایک نے بھی جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑ دی تو جانور حلال نہ ہوا، ہاں بھول کر بسم اللہ پڑھنا رہ گیا تو جانور حلال ہے، اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

اور اگر مل کر ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک نے جانور پکڑا ہوا ہو اور دوسرا چھری چلا رہا ہو تو صرف چھری چلانے والے پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، جانور کو پکڑنے والے پر نہیں۔

اسی سے متعلق یہ مسئلہ بھی ہے کہ قصاب قربانی کے وقت جانور کی تین رگیں کٹنے سے پہلے ہی چھری ذبح کرنے والے کے ہاتھ سے لے کر گردن پر چلانے لگتا ہے یا ذابح کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یا ساتھ میں چھری پکڑ کر سہارا دیتا ہے، اگر وہ جان بوجھ کر بغیر بسم اللہ پڑھے ایسا کرے یا یہ سمجھے کہ پہلے چھری چلانے والے کا بسم اللہ پڑھنا کافی ہے تو جانور کا کھانا حرام ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَ لَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْكَرِ اسْمُ اللّٰهِ عَلَیْهِ وَ اِنَّهٗ لَفِسْقٌؕ (الأنعام: 121)

ترجمہ: اور اُسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بیشک حکم عدولی ہے۔

حدیث پاک میں ہے:

المؤمن يذبح على اسم الله سمى أو لم يسم [فتح الباري لابن حجر ٩‏/٥٥٢]

ترجمہ: مومن اللہ کے نام پر ذبح کرتا ہے، خواہ بسم اللہ پڑھے یا نہ پڑھے۔

حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ مومن جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں چھوڑتا۔ بھولے سے نہ پڑھے تو اس کا ذبیحہ حلال ہے جیسا کہ بدائع الصنائع میں ایک دوسری حدیث میں ہے:

(ولنا) ما روي عن راشد بن سعد عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «ذبيحة المسلم حلال سمى أو لم يسم ما لم يتعمد» وهذا نص في الباب. [الكاساني ,بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,5/47]

یعنی ہماری دلیل راشد بن سعد کی روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے خواہ بسم اللہ پڑھے یا نہ پڑھے جب کہ جان بوجھ کر بسم اللہ نہ چھوڑے۔ اور یہ اس بارے میں صریح ہے کہ بھول کر بسم اللہ پڑھنا رہ گیا تو ذبیحہ حلال ہے۔

فتاوی امجدیہ میں ہے:

اگر بسم اللہ کہنا بھول گیا تو ذبح ہوگیا۔ جانور حلال ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ ج:۳، ص: ۳۰۱)

در مختار و رد المحتار میں ہے:

(تشترط التسمية من الذابح) وشمل ما إذا كان الذابح اثنين، فلو سمى أحدهما وترك الثاني عمدا حرم أكله. [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٠٢/٦]

ترجمہ: ذبیحہ حلال ہونے کے لیے ذبح کرنے والے بسم اللہ پڑھنا شرط ہے، اور یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جب کہ ذبح کرنے والے دو لوگ ہوں۔ پس اگر ایک نے بسم اللہ پڑھی اور دوسرے نے جان بوجھ کر چھوڑ دی تو اس کا کھانا حرام ہے۔

در مختار میں ہے:

وضع يده مع يد القصاب في الذبح وأعانه على الذبح سمى كل وجوبا، فلو تركها أحدهما أو ظن أن تسمية أحدهما تكفي حرمت [الدر المختار 6/334]

ترجمہ: کسی نے اپنا ہاتھ قصاب کے ہاتھ کے ساتھ رکھا اور ذبح کرنے میں اس کی مدد کی تو ہر ایک پر بسم اللہ پڑھنا واجب ہے۔ اگر ایک نے بھی بسم اللہ (جان بوجھ کر) چھوڑ دی یا یہ گمان کیا کہ ایک کا بسم اللہ پڑھ لینا کافی ہے تو ذبیحہ کا کھانا حرام ہے۔

فتاوی امجدیہ میں ہے:

بے شک معین ذابح (ذبح کرنے والے کی مدد کرنے والے) پر تسمیہ واجب ہے، مگر معین ذابح سے مراد وہ شخص ہے کہ چھری چلانے میں اس کا مددگار ہو کہ اس صورت میں دونوں نے مل کر ذبح کیا، اگر ایک نے بھی عمدًا تسمیہ ترک کیا، جانور حرام ہے۔ اور ذبح کرنے والے کے ہاتھ پاؤں پکڑنے والے پر تسمیہ واجب نہیں کہ یہ معین ذابح نہیں کہ فعل ذبح میں اس کو دخل نہیں۔ (فتاویٰ امجدیہ ج:۳، ص: ۲۹۶) واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
کمال احمد العطاری المصباحی
۲۶ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.