Headlines
Loading...
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کا حکم

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کا حکم

Question S. No. #38

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں:
(1) زید ایک عالم دین ہے اور اس نے اپنے بیان میں کہا: اے اللہ ! دشمن اہلبیت و مولی علی، امیر معاویہ کو جہنم رسید فرما۔ زید کا ایسا کہنا کیسا؟ یہ قول کفر ہے؟ کفر فقہی ہے یا کلامی؟
(2) زید سے جب اس بابت دریافت کیا گیا تو اس نے ان روایتوں کو پیش کیا جس میں یہ بیان ہے کہ حضرت امیر معاویہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو گالیاں دلوائیں۔ اور یہ کہا کہ ان روایتوں کی بنا پر ایسا کہا، مگر جب سنجیدگی سے بات کی گئی تو انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی اور توبہ و رجوع کیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ صرف توبہ و رجوع کافی ہے یا تجدید ایمان و نکاح بھی لازم ہے؟

المستفتی: (نامعلوم)

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کے فضائل بیان فرمائے ہیں، انھیں گالیاں دینے اور ان کی گستاخی سے منع فرمایا ہے۔ خصوصاً احادیث طیبہ میں دیگر صحابہ کی طرح حضرت امیر معاویہ کے بھی فضائل وارد ہوئے ہیں اور ان کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا بھی فرمائی ہے۔ ۔لہذا جب بھی آپ کا ذکر ہو خیر ہی کے ساتھ ہونا ضروری ہے؛ آپ کی شان میں مذکورہ کلمات کہنا یا آپ سے سوء عقیدت رکھنا سخت بد مذہبی، گمراہی اور استحقاق جہنم ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ العِشَاءِ بِرَكْعَةٍ، وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: «دَعْهُ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» [البخاري ,صحيح البخاري ,5/28]

ابن ملیکہ سے مروی ہے: آپ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشا کے بعد ایک رکعت وتر پڑھی اس وقت آپ کے پاس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام حاضر تھے جب وہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ‌ عنہما کی بارگاہ میں آۓ تو حضرت امیر معاویہ کا واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: معاویہ کا معاملہ چھوڑ دو کہ وہ صحابی رسول ہیں۔

جامع ترمذی میں ہے:

عن جابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَمَسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أَوْ رَأَى مَنْ رَآنِي» [الترمذي، محمد بن عيسى، سنن الترمذي ت شاكر، ٦٩٤/٥]

حضرت جابر بن عبدالله فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس مومن کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا مجھے دیکھنے والے مومن کو دیکھا۔

صحيح بخاري ميں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِيفَهُ» [البخاري ,صحيح البخاري ,5/8]

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ میرے صحابہ کو گالی مت دو، پس اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خيرات کرے تو وہ ان کے ایک مُد یا آدھا مُد خيرات کرنے کو نہیں پہنچ سکتا ہے۔

جامع ترمذى میں ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي [الترمذي، محمد بن عيسى، سنن الترمذي ت شاكر، ٦٩٦/٥]

حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو (اعتراضات )کا نشانہ نہ بنانا۔

صحيح ابن حبان میں ہے:

عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ عَلِّمْ معاوية الكتاب والحساب ووقه العذاب" 1. [3: 8] [ابن حبان، صحيح ابن حبان - محققا، ١٩٢/١٦]

حضرت عرباض بن ساریہ سلمی سے روایت ہے: آپ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ معاویہ کو حساب و کتاب کا علم عطا فرما اور عذاب سے بچا ۔

المسامرة میں ہے:

(واعتقاد اهل السنة)و الجماعة (تزكية جميع الصحابة)رضي الله عنهم وجوبا بإثبات العدالة لكل منهم والكف عن الطعن فيهم۔ [ المسامرۃ شرح المسایرہ، الرکن الرابع، الاصل الثامن، ص 259 ،دار الکتب العلمیة ]

اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کو عادل ماننا، ان کی پاکیزگی بیان کرنا اور ان کے متعلق طعنہ زنی سے باز رہنا ضروری ہے۔

نسيم الرياض میں ہے:

ومن يكن يطعن في معاوية فذاك كلب من كلاب الهاوية . [نسيم الرياض ج: 4 ، ص: 525، دار الكتب العلمية]

جو حضرت معاويہ کے متعلق طعنہ زنی کرے وہ جہنم کا ایک کتا ہے۔

النبراس شرح شرح العقائد میں ہے:

سبّه رجلٌ عند خليفةِ الراشدْ عمرَ بْنِ عبدِ العزيزْ فَجَلّدَه . [نبراس ص : 330]

ایک شخص نے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے یہاں حضرت امیر معاویہ کو برا بھلا کہا تو آپ نے اسے کوڑے لگوائے۔

رد المحتار میں ہے:

اتَّفَقَ الْأَئِمَّةُ عَلَى أنّ سَبّ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ وَبُغْضهُ لَا يَكُونُ كُفْرًا، لَكِنْ يُضَلَّلُ إلَخْ. [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٢٣٧/٤]

ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی صحابی رسول کو گالی دینا اور ان سے بغض رکھنا کفر تو نہیں مگر گمراہی ہے ۔

ہاں! قائل کا توبہ و رجوع کرلینا کافی ہے؛ تجدید ایمان و نکاح اس پر لازم نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
غلام رضا مدنی
استاذ جامعۃ المدینہ فیضان عطار، ناگ پور، مہاراشٹر

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.