Headlines
Loading...
مسجد میں پوری رات بلب جلاکر چھوڑ دینا کیسا؟

مسجد میں پوری رات بلب جلاکر چھوڑ دینا کیسا؟

Question S. No. #33

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مسجد میں پوری رات بلب جلاکر چھوڑ دینا کیسا؟

المستفتی: محمد نوشاد رضوی، سیتا مڑھی، بہار

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

مسجد میں تہائی رات تک چراغ (موم بتی، بلب) جلانے کی مطلقاً اجازت ہے اور اس سے زیادہ جلانے کی اجازت نہیں لیکن اگر موم بتی یا چراغ اور تیل وقف کرنے والے نے تہائی رات سے زیادہ جلانے کی شرط رکھی ہو یا کسی جگہ تہائی رات سے زیادہ جلانے کی عادت ہو تو تہائی رات کے بعد جب تک جلانے کی عادت ہو تب تک (چراغ، موم بتی یا بلب) جلا سکتے ہیں اور اگر پوری رات جلانے کی عادت ہو تو پوری رات جلانے میں بھی کوئی حرج نہیں جیساکہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی وغیرہ میں صدیوں سے اس پر عادت جاری ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَتْرُكَ سِرَاجَ الْمَسْجِدِ فِيهِ مِنْ الْمَغْرِبِ إلَى وَقْتِ الْعِشَاءِ وَلَا يَجُوزُ أَنْ يَتْرُكَ فِيهِ كُلَّ اللَّيْلِ إلَّا فِي مَوْضِعٍ جَرَتْ الْعَادَةُ فِيهِ بِذَلِكَ كَمَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَمَسْجِدِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَوْ شَرَطَ الْوَاقِفُ [ابن نجيم، البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري، ٢٧٠/٥]

محیط برھانی میں ہے:

في «فتاوي أبي الليث» : سئل أبو بكر عن سراج المسجد هل يجوز أن يتركه في المسجد؟ فاعلم بأن هنا ثلاث مسائل:
أحدها: إذا تركوها من وقت المغرب إلى وقت العشاء والحكم فيها أنه لابأس بها.
الثانية: إذا تركوها كل الليل وإنه لا يجوز إلا في موضع جرت العادة بذلك المسجد كبيت المقدس والحرم ومسجد رسول الله عليه السلام. المسألة الثالثة: إذا تركوها بعض الليلة وإنه جائز إلى ثلث الليل؛ لأن لهم تأخير العشاء إلى ثلث الليل بل يستحب لهم ذلك، وإنما يسرج في المساجد لأداء الصلاة، ويجوز ترك السراج في المسجد إلى وقت أداء الصلاة [ابن مَازَةَ ,المحيط البرهاني في الفقه النعماني ,6/211]

بہار شریعت میں عالم گیری کے حوالے سے ہے:

تہائی رات تک چراغ جلا سکتے ہیں اگرچہ جماعت ہو چکی ہو، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ، ہاں اگر واقف نے شرط کر دی ہو یا وہاں تہائی رات سے زیادہ جلانے کی عادت ہو تو جلا سکتے ہیں ، اگرچہ شب بھر کی ہو (بہار شریعت حصہ سوم)۔ واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
محمد شہباز انور البرکاتی المصباحی
اتردیناج پور، بنگال، ہند
۲۱ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح:
مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی
۲۱ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.