Headlines
Loading...
لڑکی جرم کرے تو کیا اس کے ماں باپ کو بھی سزا بھگتنی ہوگی؟

لڑکی جرم کرے تو کیا اس کے ماں باپ کو بھی سزا بھگتنی ہوگی؟

Question S. No. #113

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام ایک عورت جو کہ تین بچوں کی ماں ہے ایک غیر مرد کے ساتھ اغوا (برضا و رغبت فرار) ہوجاتی ہے۔ دس یا بارہ دن تک لاپتا رہی پھر اس کے بعد وہ پکڑی گئی۔ اب اپنے باپ کے گھر میں ہے۔ اس جرم میں باپ کو اور لڑکے اور لڑکی کو شریعت کے طور پر کیا جرم لگنا چاہیے؟

المستفتی: ارشاد احمد، تحصیل چسانہ، جموں کشمیر

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

اگر باپ، بیٹا ،بیٹی اس کے جرم میں اس کے ساتھ بالکلیہ شریک نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے اس فعل شنیع و قبیح پر راضی ہیں تو ان پر کوئی حکم شرع نہیں۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-وَ اِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ اِلٰى حِمْلِهَا لَا یُحْمَلْ مِنْهُ شَیْءٌ وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰىؕ [الفاطر: ١٨]

یعنی کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی اور اگر کوئی بوجھ والی جان اپنے بوجھ کی طرف کسی کو بلائے گی تو اس کے بوجھ میں سے کچھ بھی نہیں اٹھایا جائے گا اگرچہ قریبی رشتہ دار ہو۔

اس عظیم گناہ کے ارتکاب کا وبال اسی عورت کے سر ہے اگر اسلامی حکومت ہوتی تو اس کو اس کے اس قبیح فعل پر سخت سزا دی جاتی مگر چوں کہ یہاں اسلامی حکومت نہیں ہے اس لیے ایسی عورت کو علانیہ توبہ و استغفار کرایا جائے اور نماز وغیرہ احکام شرعیہ پر عمل کی تاکید کی جائے، نیز فقیروں اور محتاجوں پر حسب طاقت صدقہ و خیرات کی تلقین کی جائے کہ نیک اعمال قبول توبہ میں معاون ہوتے ہیں۔

چناں چہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یُبَدِّلُ اللّٰهُ سَیِّاٰتِهِمْ حَسَنٰتٍؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا [الفرقان: ٧٠]

يعنى مگر جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور اچھا کام کرے تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

فتاویٰ فیض الرسول میں ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں ہے:

ہاں اگر حکومت اسلامیہ ہوتی تو زانی اور زانیہ کو یا تو سنگسار کیا جاتا یا سو کوڑے مارے جاتے موجودہ صورت حال میں وہی حکم ہے۔

یعنی اس کو (یعنی زانیہ اور زانی کو) علانیہ توبہ واستغفار کرایا جائے اور انھیں نماز وغیرہ احکام شرعیہ پر عمل کی تاکید کی جائے نیز فقیروں کو کھانا کھلانے اور میلاد شریف وغیرہ کرنے کی تلقین کی جائے کہ نیک اعمال قبول توبہ میں معاون ہوتے ہیں۔ [فتاویٰ فیض الرسول ج: 1، فصل فی المحرمات، ص: 624، دار الاشاعت فیض الرسول، براؤں شریف) واللہ تعالیٰ اعلم۔
كتبه:
نظیر احمد قادری
متعلم: دار الافتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج، بستی، یوپی
۲۴ ربیع الآخر ۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح:
شہزادہ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.