Headlines
Loading...
دونوں سجدوں کے درمیان اللہم اغفر لی پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

دونوں سجدوں کے درمیان اللہم اغفر لی پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

Question S. No. #98

سوال: کیا فرماتے ہیں علماے دین ما بین سجدتین (دونوں سجدوں کے درمیان) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا
سائل:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب: ما بین سجدتین نوافل میں اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ واعْفِنِیْ واھْدِنِیْ وارْزُقْنِیْ پڑھنا مسنون ہے اور حدیث ابوداؤد جس میں یہ دعا وارد ہے ہے عند الحنفیہ نوافل پر محمول ہے اور فرائض میں اگر منفرد ہو یا مقتدی تھوڑے ہوں اور معلوم ہو کہ ان پر گراں نہ ہوگا تو اس کے پڑھنے میں حرج نہیں بلکہ پڑھنا مستحب مندوب ہے کیوں کہ ائمۂ حنفیہ نے اس کی کہیں ممانعت نہیں فرمائی اور حنبلیہ کے نزدیک اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ کہنا واجب ہے اور اس کے بغیر نماز ہی باطل ہے اور علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اگر اپنے مذہب سے خلاف کرنا لازم نہ ہو تو رعایت اختلاف مستحب ہے یعنی اس طرح عمل کرے کہ دوسرے کے نزدیک باطل نہ قرار پائے۔

در مختار میں ہے:

وليس بينهما ذكر مسنون على المذهب وما ورد محمول على النفل [ابن عابدين ,الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,1/506]

ترجمہ: دونوں سجدوں کے درمیان کوئی ذکر مسنون نہیں ہے۔ اور جو اذکار وارد ہوئے ہیں وہ نفل نمازوں پر محمول ہیں۔

رد المحتار میں ہے:

قال أبو يوسف: سألت الإمام أيقول الرجل إذا رفع رأسه من الركوع والسجود اللهم اغفر لي؟ قال: يقول ربنا لك الحمد وسكت، ولقد أحسن في الجواب إذ لم ينه عن الاستغفار نهر وغيره.

أقول: بل فيه إشارة إلى أنه غير مكروه إذ لو كان مكروها لنهى عنه كما ينهى عن القراءة في الركوع والسجود وعدم كونه مسنونا لا ينافي الجواز كالتسمية بين الفاتحة والسورة، بل ينبغي أن يندب الدعاء بالمغفرة بين السجدتين خروجا من خلاف الإمام أحمد لإبطاله الصلاة بتركه عامدا ولم أر من صرح بذلك عندنا، لكن صرحوا باستحباب مراعاه الخلاف، والله أعلم [ابن عابدين ,الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,1/505]
کتبہ: صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی رضوی علیہ الرحمہ

(ماخوذ از فتاویٰ امجدیہ، ج 1، ص: 80)

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.