Headlines
Loading...
ثنا پڑھتے وقت منہ سے لفظ ثنا نکل جائے تو کیا حکم ہے؟

ثنا پڑھتے وقت منہ سے لفظ ثنا نکل جائے تو کیا حکم ہے؟

Question S. No. #29

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نماز میں تکبیر تحریمہ اور سورہ فاتحہ کے درمیان ثنا، تعوذ اور تسمیہ کے علاوہ پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تو بعض اوقات جب ثنا پڑھتے ہیں تو زبان سے ”ثنا سبحانك اللھم“ نکل جاتا ہے، تو اس صورت میں لفظ "ثنا" کا جو اضافہ ہوا اس سے نماز مکروہ تحریمی ہوگی؟

المستفتی: محمد دلشاد علی عطاری غازی پور، یوپی

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

سورہ فاتحہ اور تکبیر تحریمہ کے درمیان کا محل، محل ثنا ہے اس میں کسی ایسی چیز کا اضافہ جو ثنا سے متعلق ہو کسی طرح کی خرابی کو مستلزم نہیں اور اگر محل ثنا سے نہیں اور اس سے فساد معنی بھی لازم نہیں آتا تب بھی نماز بلا کراہت ہو جاے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قرأ التشهد في القيام إن کان في الرکعة الأولى لا يلزمه شيء، وإن كان في الرکعة الثانية اختلف المشايخ فيه، والصحيح أنه لا يجب، کذا في الظھيرية۔

ولو تشهد في قيامه قبل قراءة الفاتحة فلا سهو عليه وبعدها يلزمه سجود السهو وھو الأصح؛ لأن بعد الفاتحة محل قراءة السورة فإذا تشهد فيه فقد أخر الواجب وقبلها محل الثنا، کذا في التبيين ولو تشهد في الأخريين لا يلزمه السهو، كذا في ميیط السرخسي" [الفتاوى الهندية ج ١ ص ۱۲۷ الباب الثاني عشر في سجود السهو]

اس وضاحت کے بعد اب جواب ملاحظہ فرمائیں:

"ثنا" جو نماز کے اندر مسنون ہے، اس کے کلمات کی ابتدا " سبحنك اللھم سے ہوتی ہے لفظ "ثنا " اس کا جز نہیں اس لیے لفظ "ثنا " کا اضافہ نہ چاہیے۔

لیکن لفظ "ثنا" خود ثنا ہے اس لیے غلطی سے اگراضافہ ہو بھی جائے تو اس سے نماز میں کوئی ایسی خرابی لازم نہیں آتی ہے جس سے نماز میں کوئی فرق پڑے ۔

بلکہ اس سے اہم، مسئلۂ قراءت میں فقہاے کرام نے "زلة القاری" کے باب میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ دوران قرات اگر ایسے لفظ کا اضافہ ہوا جس سے معنی میں تغیر فاحش نہ ہو تو نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

در مختار مع فتاوی شامی میں ہے:

ولو زاد کلمة او نقص کلمة او نقص حرفا او قدمہ او بدلہ بآخر۔۔۔۔ لم تفسد مالم یتغیر المعنی الا ما یشق تمییزہ کالضاد والطاء فاکثرھم لم یفسدھا" ۔ ( الدر المختار مع الشامي ج ۲ ص ۳۹۵، ۳۹۶)

بہار شریعت میں ہے:

"کوئی کلمہ زیادہ کردیا ، تو وہ کلمہ قرآن میں ہے یا نہیں اور بہر صورت معنی کا فساد ہوتا ہے یا نہیں ، اگر معنی فاسد ہوجائیں گے، نماز جاتی رہے گی،۔۔۔اور اگر معنی متغیر نہ ہوں، تو فاسد نہ ہوگی اگر چہ قرآن میں اس کا مثل نہ ہو"۔ (بہار شریعت ج١ ح٣ ص ۵۵۷)

مذکورہ بالا جزئیات سے سمجھ میں آیا کہ جب قرآنی آیات میں کسی غیر قرآنی لفظ کا اضافہ ہو جاے اور معنی متغیر نہ ہو تو نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی تو محل ثنا جس میں الفاظ کا ماثور ہونا لازم نہیں وہاں اگر اس طرح کا اضافہ ہو جائے جو معنی کو متغیر نہ کرے کیوں کر نماز میں خرابی پیدا کرے لہذا لفط ثنا کا اضافہ نہ چاہیے لیکن اگر سہوا ہوگیا تو بھی نماز میں کوئی خرابی نہیں۔ واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم
كتبه:
نظیر احمد القادری المصباحی
مہور، ریاسی، جموں و کشمیر
۱۸ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح:
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی ازہری

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.