Headlines
Loading...
پچھلے سال قربانی نہیں کی تو کیا اس سال ہوسکتی ہے؟

پچھلے سال قربانی نہیں کی تو کیا اس سال ہوسکتی ہے؟

Fatwa No. #210

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کی سابقہ چار سال کی قربانیاں باقی ہیں۔ وہ صاحب نصاب تھے ، مگر ان سالوں میں قربانی نہیں کی۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ اس سال گائے وغیرہ لے کر سابقہ چار سال کا حصہ بھی شامل کرلیا جائے اور اس سال کی بھی قربانی ادا کردیں، تو کیا ایسا کرنے سے وہ بری الذمہ ہوجائیں گے یا کچھ اور طریقہ ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
المستفتی: نامعلوم

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

صورت مسئولہ میں ان پر سابقہ چار سالوں کی قربانی نہ کرنے کی وجہ سے چار بکریوں کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ان کے بدلے میں اس سال بڑے جانور میں حصے کی صورت میں یا بکرا، بکری قربان کردیں۔ اس طرح کرنے سے سابقہ قربانیاں ادا نہیں ہوسکتیں، کیوں کہ صاحبِ نصاب پر قربانی کے ایام اگر گزر جائیں اور جانور بھی قربانی کے لیے نہ خریدا ہو، تو پھر بکری کی قیمت صدقہ کرنا لازم آتی ہے اور اگر اس سال گزشتہ سالوں کی نیت سے بڑے جانور میں حصہ ڈالیں گے، تو موجودہ سال کی قربانی ہوجائے گی اور باقی گزشتہ سالوں کی طرف سے ادا نہیں ہوں گی۔ محض نفل ہوں گی اور ایسی صورت میں سارے کا سارا گوشت (یعنی موجودہ سال والی اور دوسری قربانیوں کا گوشت) بھی صدقہ کرنا ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

إنها لا تقضى بالإراقة؛ لأن الإراقة لا تعقل قربة وإنما جعلت قربة بالشرع في وقت مخصوص فاقتصر كونها قربة على الوقت المخصوص فلا تقضى بعد خروج الوقت. [الكاساني ,بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,5/68]

ترجمہ: قربانی کی قضا خون بہانے (یعنی جانور ذبح کرنے)سے نہیں ہوسکتی ،کیونکہ خون بہانا عقلاً قربت نہیں ہے ،اسے شرع کی وجہ سے ایک وقت مخصوص میں قربت قرار دیا گیا ہے ،تو اس کا قربت ہونا وقت مخصوص تک ہی محدود ہوگا ،وقت کے ختم ہونے کے بعد اس طرح قضا نہیں ہوسکتی۔

اسی میں ایام نحر کے بعد قیمت لازم ہونے کے بارے میں ہے:

وإن كان لم يوجب على نفسه ولا اشترى وهو موسر حتى مضت أيام النحر تصدق بقيمة شاة تجوز في الأضحية [الكاساني ,بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,5/68]

ترجمہ: اگر قربانی اپنے اوپرخود واجب نہیں کی تھی اور نہ ہی قربانی کے لیے جانور خریدا تھا اور وہ صاحب نصاب بھی تھا (اور اس نے قربانی نہیں کی) یہاں تک کہ ایام نحر گزر گئے تو اب ایک ایسی بکری کی قیمت صدقہ کرے گا جس کی قربانی جائز ہوتی ہو۔

گزشتہ سالوں کی نیت سے حصہ ڈالنے کے متعلق رد المحتار میں ہے:

وشمل ما لو كان أحدهم مريدا للأضحية عن عامه وأصحابه عن الماضي تجوز الأضحية عنه ونية أصحابه باطلة وصاروا متطوعين، وعليهم التصدق بلحمها وعلى الواحد [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٢٦/٦]

ترجمہ: (بڑے جانور میں) شرکاء میں سے کسی ایک نے موجودہ سال کی قربانی کی نیت کی اور باقیوں نے گزشتہ سالوں کی، تو موجودہ سال والے کی نیت درست ہوجائے گی اور اس کے ساتھیوں کی نیت باطل ہوگی اور ان کی قربانیاں نفل ہوں گی اور ان پر اور اس اکیلے پر (جس نے موجودہ سال کی نیت کی تھی، ان سب پر) گوشت صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتے ہیں:

’’غنی نے قربانی کیلئے جانور خرید لیا ہے تو وہی جانور صدقہ کردے او ر ذبح کر ڈالا تو وہی حکم ہے جو مذکور ہوا اور خریدا نہ ہو تو بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ ‘‘ (بہار شریعت، ج: 3، ص: 338، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مزید اسی میں ہے :

’’قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ دوسری بقرعید آ گئی اب یہ چاہتا ہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضا اس سال کرلے ، یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اب بھی وہی حکم ہے کہ جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے۔ (بہار شریعت، ج: 3، ص: 339، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

گزشتہ سالوں کی قربانی کی نیت سے حصہ ڈالا تو اس کے متعلق بہارِ شریعت میں ہی ہے:

” شرکاء میں سے ایک کی نیت اس سال کی قربانی ہے اور باقیوں کی نیت سال گزشتہ کی قربانی ہے ، تو جس کی اس سال کی نیت ہے اوس کی قربانی صحیح ہے اور باقیوں کی نیت باطل ، کیونکہ سال گزشتہ کی قربانی اس سال نہیں ہوسکتی ۔ ان لوگوں کی یہ قربانی تطوّع یعنی نفل ہوئی اور ان لوگوں پر لازم ہے کہ گوشت کو صدقہ کر دیں بلکہ ان کا ساتھی جس کی قربانی صحیح ہوئی ہے ، وہ بھی گوشت صدقہ کر دے۔ “ (بہار شریعت، ج: 3، ص: 343، مکتبۃ المدینہ، کراچی) وَاللهُ أَعْلَمُ عزوجل وَ رَسُولُهُ أَعْلَم صلى الله تعالى عليه واله وسلم
کتبہ:
ابو حذیفہ مفتی شفیق عطاری

[فتاویٰ قربانی، ص: 10 - 13، مکتبۃ المدینہ، پیش کش مجلس افتا، دعوت اسلامی]

واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.