Headlines
Loading...
قرض دی ہوئی رقم پر قربانی کا حکم

قرض دی ہوئی رقم پر قربانی کا حکم

Fatwa No. #209

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کے پاس ایک لاکھ روپے تھے، رمضان المبارک میں اس نے وہ کسی کو بطور قرض دیے اور طے یہ پایا کہ قرض خواہ محرم الحرام میں واپس کرے گا، اب قربانی کے ایام قریب ہیں اور اس کے پاس کوئی اور مال نہیں اور اپنی رقم ان دنوں میں نہیں مل سکتی، کیا زید پر قربانی کر نالازم ہے یا نہیں؟
المستفتی: نامعلوم

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

پوچھی گئی صورت میں زید کے لیے لازم ہے کہ قرض خواہ سے اتنی رقم کا مطالبہ کرے، جس سے قربانی ہو سکے، جب کہ اس کو ظن غالب ہو کہ وہ دے دے گا اور اگر کوئی صورت نہ بنے کہ نہ تو زید کو ایام قربانی میں وہ رقم مل سکتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی اور مال ہے، جس سے جانور خرید سکے، تو اس پر قربانی واجب نہیں۔ اس صورت میں اس پر قرض لے کر قربانی کرنا لازم نہیں اور نہ ہی قرض ملنے کے بعد قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے۔

فتاوی بزاز یہ میں ہے:

"له دین حال علی مقر ولیس عنده مایشتریها به لایلزمه الاستقراض ولا قيمة الاضحية إذا وصل الدين إليه ولکن یلزمه أن يسأل منه ثمن الاضحية إذا غلب على ظنه أنه يعطيه. [فتاوی بزازیہ، ج: 2، ص: 406، مطبوعہ کراچی]

ترجمہ: صاحب نصاب کا کسی ایسے شخص پر قرض فوری ہے، جس کا وہ اقرار کرتا ہے اور اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں کہ جس سے وہ قربانی کے لیے جانور خرید سکے، تو اس پر قربانی کے لیے قرض لینا لازم نہیں اور نہ ہی قرض واپس ملنے پر قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے، لیکن اس کے لیے قربانی کی قیمت جتنی رقم کا سوال کرنا لازم ہے، جب کہ اس کو ظن غالب ہو کہ وہ دے دے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

ولو كان عليه دين بحيث لو صرف فيه نقص نصابه لا تجب، وكذا لو كان له مال غائب لا يصل إليه في أيامه، [مجموعة من المؤلفين ,الفتاوى الهندية ,5/292]

ترجمہ: اگر کسی شخص پر اتنادین ہو کہ وہ اپنا مال اس دین کی ادائیگی میں صرف کرے، تو نصاب باقی نہ رہے ، تو اس پر قربانی نہیں ہے۔ اسی طرح جس شخص کا مال اس کے پاس موجود نہیں اور قربانی کے ایام میں وہ مال اسے ملے گا بھی نہیں (بلکہ ایام قربانی کے بعد ملے گا، تو اس پر بھی قربانی واجب نہیں)۔

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

”اوس شخص پر دین ہے اور اوس کے اموال سے دین کی مقدار مجرا کی جائے تو نصاب نہیں باقی رہتی ، اوس پر قربانی واجب نہیں اور اگر اس کا مال یہاں موجود نہیں ہے اور ایام قربانی گزرنے کے بعد وہ مال او سے وصول ہو گا تو قربانی واجب نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ 333، مکتبۃ المدینہ کراچی) وَاللهُ أَعْلَمُ عشوجل وَ رَسُولُهُ أَعْلَم صلى الله تعالى عليه واله وسلم
کتبہ:
مفتی محمد ہاشم خان عطاری

[فتاویٰ قربانی، ص: 7 - 9، مکتبۃ المدینہ، پیش کش مجلس افتا، دعوت اسلامی]

واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.