Headlines
Loading...
خطبہ کی اذان حضور اور صحابہ کے زمانے میں مسجد کے اندر ہوتی تھی یا باہر؟

خطبہ کی اذان حضور اور صحابہ کے زمانے میں مسجد کے اندر ہوتی تھی یا باہر؟

Fatwa No. #187

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ:
1... جمعہ کی اذان ثانی جو منبر کے سامنے ہوتی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد کے اندر ہوتی تھی یا باہر؟
2... خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانے میں کہاں ہوتی تھی؟
3... اگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے زمانے میں اذان مسجد کے باہر ہوتی تھی اور ہمارے اماموں نے مسجد کے اندر اذان کو مکروہ فرمایا ہے تو ہمیں اسی پر عمل لازم ہے یا رسم و رواج پر؟ اور جو رسم و رواج حدیث شریف و احکام فقہ سب کے خلاف پڑ جائے تو وہاں مسلمانوں کو پیروی حدیث و فقہ کا حکم ہے یا رسم و رواج پر اڑا رہنا؟
المستفتی: جناب مولانا محمد جمیل الرحمن خان صاحب بریلوی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

1... رسول اللہ ﷺ کے زمانہ اقدس میں یہ اذان مسجد سے باہر دروازے پر ہوتی تھی۔

سنن ابی داؤد شریف میں ہے:

عن السائب بن يزيد : يُؤَذِّنُ بينَ يَدِيِ رسولِ اللهِ ﷺ إذا جَلَسَ على المنبرِ يومَ الجمعةِ على بابِ المسجدِ وأبي بكرٍ وعمرَ. [سنن أبي داود، رقم الحديث: ١٠٨٨]

یعنی جب رسول اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں۔

اور کبھی منقول نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین نے مسجد کے اندر اذان دلوائی ہو۔ اگر اس کی اجازت ہوتی تو بیان جواز کے لیے کبھی ایسا ضرور فرماتے۔ واللہ تعالی اعلم

2... جواب اوّل سے واضح ہو گیا کہ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی مسجد کے باہر ہی ہونا مروی ہے اور یہیں سے ظاہر ہو گیا کہ بعض صاحب جو ”بين يديه“ سے مسجد کے اندر ہونا سمجھتے ہیں غلط ہے، دیکھو حدیث میں ”بين يديه“ ہے اور ساتھ ہی ”على باب المسجد “ ہے، یعنی حضور اقدس صلى الله عليه وسلم و خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے چہرہ انور کے مقابل مسجد کے دروازے پر ہوتی تھی۔ بس اسی قدر ”بين يديه“ کے لئے درکار ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم

3... ظاہر ہے کہ حکم حدیث وفقہ کے خلاف رواج پر اڑا رہنا مسلمانوں کو ہر گز نہ چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ:
حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ

[ملتقطاً، فتاوی حامدیہ، ص: 229 تا 233، مطبوعہ زاویہ پبلشرز، لاہور]

اپنا سوال بھیجنے کے لیے یہاں کلک کریں
واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.