Headlines
Loading...
موبائل ریپئرنگ کے بعد مالک اپنا موبائل لینے نہیں آیا تو دوکان دار اس موبائل کا کیا کرے؟

موبائل ریپئرنگ کے بعد مالک اپنا موبائل لینے نہیں آیا تو دوکان دار اس موبائل کا کیا کرے؟

Question S. No. #130

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید کی موبائل ریپئرنگ (repairing) کی دکان ہے اس کے پاس لوگ موبائل ریپئرنگ کے لئے دیکر جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا موبائل درست ہو جاتا ہے لیکن موبائل کا مالک ایک مدت گزر جانے کے بعد بھی لینے نہیں آتا ہے، تو زید ان موبائل کا کیا کرے جب کہ زید کاپیسہ اس میں پھنسا ہوا رہتا ہے۔ حوالے کے ساتھ جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔

المستفتی: تنظیم رضا پورنوی، پورنیہ، بہار

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

صورت مسؤلہ میں زید اجیر مشترک ہے ۔اور اجیر مشترک کے پاس جو لوگ کام لے کر آتے ہیں اس مال کی شرعی حیثیت امانت اور ودیعت کی ہے ۔اور ودیعت کا حکم یہ ہے کہ جب تک اس چیز کا مالک نہیں آتا ہے اس کی حفاظت کرے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

غَابَ الْمُودِعُ وَلَا يَدْرِي حَيَاتَهُ وَلَا مَمَاتَهُ يَحْفَظُهَا أَبَدًا حَتَّى يَعْلَمَ بِمَوْتِهِ وَوَرَثَتِهِ، كَذَا فِي الْوَجِيزِ لِلْكَرْدَرِيِّ. [مجموعة من المؤلفين ,الفتاوى الهندية ,4/354]

ترجمہ: امانت دینے والا غائب ہو اور اس کی زندگی اور موت کا پتہ نہ چلے تو امانت کی حفاظت کی جائے گی یہاں تک کہ اس کی موت اور اس کے ورثہ کا پتہ چل جائے۔ ایسا ہی امام کردری کی وجیز میں ہے۔

اب زید ان موبائل کا کیا کرے؟ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اگر زید کو ان کے مالک کے بارے ميں خبر ہے۔اور اطلاع دینے کے باوجود وہ لوگ نہیں آتے۔ تو زید ان کی رضامندی سے موبائل ان سے خرید لے اور اسے فروخت کرکے اپنا پیسہ لے لے۔

یا اگر مالک کا پتہ نہیں ہے، مگر موبائل ایک مدت گزر جانے کی وجہ سے خراب ہونے کا خدشہ ہے تو اس کا بیچنا جائز ہے۔ موبائل بیچنے کے بعد اپنا پیسہ جو اس میں لگا ہے لے لے، باقی رقم کی حفاظت کرے جب مالک آئے تو حوالے کردے۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

فَتَاوَى أَبِي اللَّيْثِ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - إذَا كَانَتْ الْوَدِيعَةُ شَيْئًا يُخَافُ عَلَيْهِ الْفَسَادُ، وَصَاحِبُ الْوَدِيعَةِ غَائِبٌ، فَإِنْ رَفَعَ الْأَمْرَ إلَى الْقَاضِي حَتَّى يَبِيعَهُ جَازَ وَهُوَ الْأَوْلَى ...وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي الْبَلَدِ قَاضٍ بَاعَهَا وَحَفِظَ ثَمَنَهَا لِصَاحِبِهَا، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ [مجموعة من المؤلفين ,الفتاوى الهندية ,4/344]

ترجمہ: فتاوی ابو اللیث رحمہ اللہ میں ہے جب ودیعت کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ خراب ہو جائے گی، اور مالک موجود نہیں ہے۔[یا وہ لے نہیں جاتا] تو ودیعت رکھنے والا قاضی کے پاس معاملہ پیش کرے، قاضی اس کو بیچنے کی اجازت دے تو اس کو بیچنا جائز ہے، اور یہی بہتر ہے ...اور اگر اس شہر میں قاضی نہ ہو تو اسے فروخت کردے اور صاحب ودیعت کے قیمت کی حفاظت کرے۔ ایسا ہی سراج الوھاج میں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
كتبه:
غلام محی الدین ضیائی، بنارس، یوپی
الجواب صحیح:
فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمٰن مضطر رضوی حفظہ اللہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.