Headlines
Loading...
پیر کیسا ہونا چاہیے؟

Question S. No. #126

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

علماے کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں عرض ہے کی ایک شخص ہے جو اپنے آپ کو پیر کہلاتا ہے اور اس کی داڑھی جو ہے وہ زیرو ہے، تو کیا ایسے پیر سے تعلق رکھنا ٹھیک ہے اور ایسے پیر صاحب کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟

پیر صاحب کو ممبر پر کھڑا کرنا کیسا ہے؟ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ سید ہے اس لیے ان کی ہر بات ماننی ہوگی چاہے وہ شریعت سے ہٹ کر بھی کوئی بات ہے، لوگ اس کو بھی مانتے ہیں اس بارے میں اور علم سے بھی خالی ہے اور لوگوں کو ایسی ایسی باتیں کہتے ہیں، ایک شخص کو کہتے ہیں: تیرے ساتھ ایسا ہونے والا تھا تو بال بال بچ گیا، وہاں یہ ہونے والا تھا، تیرے گھر میں جادو ہے۔

لوگوں کو ڈراتے ہیں اور ایک شخص نے مجھے بتایا: اگر ان کو ہدیہ نہ دے تو وہ کہہ رہے تھے کہ میں ہاتھ الٹے کروں گا، تمہیں پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔ کیا صحیح میں ایسا کچھ ہے؟ ایسے پیر صاحب کے لیے کے شرعی حکم کیا ہوگا رہنمائی فرمائیں۔

المستفتی: محمد احمد

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

پیر ایک شرعی رہنما اور نمائندہ ہوتا ہے، اس میں اعتبار شریعت کا ہے کہ اسلام نے جس کو رہنما اور پیر مانا ہے وہ پیر ہے نہ کہ وہ جس کو سادی اور علم سے نا بلد عوام پیر کہتی ہے۔ اس لیے یہ یاد رہے کہ پیر وہی ہو سکتا ہے جس کے اندر یہ چار شرائط پائے جائیں:
1- سنی صحیح العقیدہ ہو۔
2- عالم دین یعنی اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال لے۔
3- فاسق معلن نہ ہو۔
4- س کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک متصل ہو۔

مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

بیعت گرفتن ودر مسند ارشاد نشستن را ازچار ناگزیرست:
یکے آنکہ سنی صحیح العقیدہ باشد زیرا کہ بد مذہبیاں سگان دوزخ اند بدترین خلق چنانچہ درحدیث آمدہ ست۔
دوم: عالم بعلم ضروری بودن کہ ع

بے علم نتواں خدا را شناخت

سوم: اجتناب کبائر کہ فاسق واجب التوہین است ومرشد واجب التعظیم ہر دو چہ گونہ بہم آید۔
چہارم: اجازت صحیحہ متصلہ كما أجمع عليه أهل الباطن

ہر کہ ازنہا ہیچ شرطے را فاقد ست او را نشاید پیر گرفتن۔ [فتاویٰ رضویہ، ج: 21 ، ص: 491-492 ، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا]

اگر پیر، ان شرائط کا جامع ہے تو چاہے سادات کرام یا غیر سادات کرام سے ہو ، اس کے پیچھے نماز پڑھنا ، ممبر پر وعظ کے لیے کھڑا کرنا جائز و درست ہے۔

سوال میں مذکور اوصاف کے حامل شخص ہرگز نہ پیر بننے کے لائق ہیں ،نہ ہی ان کے اس طرح کے جملے تیرے ساتھ ایسا ہونے والا تھا الخ۔ کا کوئی اعتبار ہے ، نہ ہی ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے، اور نہ ہی ان کو ممبر پر کھڑا کرنا جائز، ایسے شخص کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھی گئیں، سب کو دوبارہ پڑھنا لازم و ضروری ہے۔

ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مٹھی سے کم کرنا حرام ہے، لہذا داڑھی منڈے یاخشخشی داڑھی رکھنے والے امام کے پیچھے کوئی بھی نماز، چاہے فرض ہو یا تراویح، پڑھنا جائز نہیں اور اسے امام بنانا بھی ناجائز وگناہ ہے اور اس کے پیچھے اگر نماز پڑھ لی، تو وہ مکروہ تحریمی، واجب الاعادہ یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔

امام کمال الدین ابن ہمام علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

واما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم سبحه أحد. [فتح القدير، ج: ٢، ص: ٣٥٢]

ترجمہ: داڑھی ایک مٹھی سے کم کروانا جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور زنانہ وضع کے مرد کرتے ہیں ، اسے کسی نے بھی مباح نہیں قرار دیا۔

سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:

داڑھی کترواکر ایک مشت سے کم رکھنا حرام۔ ہے۔ [فتاوی رضویہ ، ج: 23 ، ص: 98، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا]

اسی میں ہے:

داڑھی ترشوانے والے کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب۔ [فتاوی رضویہ ، ج: 6 ، ص: 603، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا]

داڑھی ترشوا کر ایک مٹھی سے کم کرنے والے کو امام بنانا بھی گناہ ہے۔

جیسا کہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے والے کے بارے میں فرماتے ہیں:

وہ فاسق معلن ہے اور اسے امام کرنا گناہ اور اس کے پیچھے نماز پڑھنی مکروہ تحریمی ہے۔ غنیہ میں ہے: ”لو قدموا فاسقا يأثمون“ اگر لوگوں نے فاسق کو مقدم کیا تو وہ لوگ گنہگار ہوں گے۔ [فتاوی رضویہ ج: 6، ص: 544، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر، گجرات]

اگر ان اوصاف کے حامل شخص پر بیعت کر لی ہے تو فسخ کرنا لازم۔ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں:

فاسق کے ہاتھ پر بیعت جائز نہیں۔ اگر کر لی ہو فسخ کر کے کسی پیر متقی، سنی، صحیح العقیدہ، عالم دین، متصل السلسلہ کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ [فتاویٰ رضویہ، ج: 21، ص: 603، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا]

ان تمام شرعی امور میں سوال میں مذکور اوصاف کے حامل شخص کو اگر چہ وہ سادات کرام سے ہیں، رہنما و مقتدی بنانا جائز نہیں، تاہم پھر بھی سید جب تک صحیح العقیدہ ہوں، واجب التعظیم ہیں، ان شرعی امور کے علاوہ باقی مقامات پر ان کی نسب کی بنیاد پر ہر کسی کو ان کی تعظیم کرنا واجب و ضروری ہے۔

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت فرماتے ہیں:

سید سنی المذہب کی تعظیم لازم ہے اگر چہ اس کے اعمال کیسے ہوں، ان اعمال کے سبب اس سے تنفر نہ کیا جائے نفس اعمال سے تنفر ہو بلکہ اس کے مذہب میں بھی قلیل فرق ہو کہ حد کفر تک نہ پہنچے جیسے تفضیل تو اس حالت میں بھی اس کی تعظیم سیادت نہ جائے گی، ہاں اگر اس کی بد مذہبی حد کفر تک پہنچے جیسے رافضی، وہابی، قادیانی، نیچری وغیرہم تو اب اس کی تعظیم حرام ہے کہ جو وجہ تعظیم تھی یعنی سیادت وہی نہ رہی۔ [فتاویٰ رضویہ، ج: 22، ص: 423، مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا] واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
نظیر احمد قادری
متعلم: دار الافتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج، بستی، یوپی
۶ رجب المرجب ۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح:
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.