Headlines
Loading...

Question S. No. #128

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتیان اکرام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ اگر ایک آدمی شراب کے کاروبار میں کام کر رہا ہے جیسے آج کل بڑے ہوٹلوں میں بار Bar کےنام پر مشہور ہے۔ کیا اس میں کام کرنا جیسے waiters وغیرہ ہوتے ہیں جائز ہے؟ براے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی۔ والسلام
المستفتی: عاشق حسین ملک، تحصیل راج گڑھ، ضلع رام بن، جموں و کشمیر

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

صورت مستفسرہ میں شخص مذکور کو ایسے ہوٹل پر جہاں شراب وغیرہ حرام اشیا فراہم کی جاتی ہیں، خاص ان کاموں میں نوکری ہے تو یہ شرعاً ناجائز و گناہ ہے کیوں کہ حرام اشیا ان کے کھانے پینے کے لیے فراہم کرنا ضرور گناہ پر تعاون ہے اور رب عزوجل نے گناہ پر معاونت سے منع فرمایا؛ اس لیے اگر انجانے میں ایسے ہوٹل یا اس جیسے دوسرے ریسٹورنٹس پر کام کرنے لگا تو معلوم ہونے کے بعد فوراً اسے اس ناجائز نوکری کو چھوڑنا اس پر لازم و ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ [المائدة: ٢]

یعنی اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔

ترمذی شریف کی حدیث پاک میں ہے:

عن أنس بن مالك: لعن رسولُ اللهِ ﷺ في الخمرةِ عشرةً: عاصرَها، ومعتصرَها، وشاربَها، وحاملَها، والمحمولةَ إليه، وساقيها، وبائعَها، وآكلَ ثمنِها، والمشتريَ لها، والمشتراةَ له [ سنن الترمذي ١٢٩٥]

یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے معاملے میں دس بندوں پر لعنت فرمائی ہے، جو شراب کے لیے شیرہ نکالے، جو شیرہ نکلوائے، جو شراب پیے، جو اٹھا کر لائے، جس کے پاس لائی جائے، جو شراب پلائے، جو بیچے، جو اس کے دام کھائے، جو خریدے اور جس کے لیے خریدی جائے

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

شراب کابنانا، بنوانا، چھونا، اٹھانا، رکھنا، رکھوانا، بیچنا، بکوانا، مول لینا، دلوانا سب حرام حرام حرام ہے اور جس نوکری میں یہ کام یا شراب کی نگہداشت، اس کے داموں کا حساب کتاب کرنا ہو، سب شرعاً ناجائز ہیں۔

قال الله تعالیٰ: وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- [فتاوی رضویہ، بیان کسب و حصول مال ،ج: 23 ،566 مطبوعہ مرکز اہل سنت برکات رضا، پوربندر، گجرات]

کفار بھی فروعات کے مکلّف ہیں

بدائع الصنائع میں ہے:

حرمة الخمر والخنزير ثابتة في حقهم كما هي ثابتة في حق المسلمين؛ لأنهم مخاطبون بالحرمات وهو الصحيح عند أهل الأصول [الكاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ١١٣/٧]

یعنی شراب اور خنزیر کی حرمت غیر مسلموں کے حق میں بھی بالکل اسی طرح ثابت ہے جس طرح مسلمانوں کے حق میں ثابت ہے، کہوں کہ وہ بھی محرمات کے مکلف ہیں اور یہی اہل اصول کے نزدیک صحیح ہے۔

ہدایہ شریف میں ہے:

ولا أن يسقي ذميا ولا أن يسقي صبيا للتداوي، والوبال على من سقاه [المَرْغِيناني ,الهداية في شرح بداية المبتدي ,4/398]

یعنی ذمی اور بچہ کو دوا کے لیے (بھی) شراب پلانا جائز نہیں اور اس کا وبال پلانے والے پر ہوگا۔

بہار شریعت میں ہے:

کافر یا بچہ کو شراب پلانا بھی حرام ہے اگرچہ بطورِ علاج پلائے اور گناہ اسی پلانے والے کے ذمہ ہے۔ بعض مسلمان انگریزوں کی دعوت کرتے ہیں اور شراب بھی پلاتے ہیں وہ گناہ گار ہیں، اس شراب نوشی کا وبال انہیں پر ہے۔ (بہارشریعت، ج 3، ص: 672، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اسی طرح کی ایک ناجائز نوکری کے تعلق سے حضور صدر الشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:

جب کہ یہ معلوم تھا کہ اس ہوٹل میں خنزیر کا گوشت پکتا ہے اور ان دونوں کے متعلق یہ کام تھا کہ کھانا میز تک پہنچائیں، تو ایسے ہوٹل میں انہیں ملازمت ہی نہ چاہیے تھی، توبہ کر کے برادری میں شامل ہو جائیں۔ حدیث میں ہے: التّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لا ذَنْبَ لهُ [أخرجه الطبراني في «المعجم الكبير» (٢٢/ ٣٠٦] [فتاوی امجدیہ،کتاب الاجارہ، ج: 3، ص: 271، مطبوعہ کتب خانہ امجدیہ، دہلی] واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
نظیر احمد قادری
متعلم: دار الافتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج، بستی، یوپی
۱۱ جمادی الآخرہ ۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح:
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.