Headlines
Loading...
حاملہ جانور کی قربانی کی ممانعت کس درجے کی ہے؟

حاملہ جانور کی قربانی کی ممانعت کس درجے کی ہے؟

Question S. No. #120

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں:
1- حاملہ جانور کی قربانی کرنا کیسا ہے؟
2- اگر ممنوع ہے تو کس درجے کی ممانعت ہے؟
3- حمل کی عمر کا کوئی اعتبار ہوگا یا نہیں؟

المستفتی:

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

1- حاملہ جانور کی قربانی جائز و درست ہے مگر شرعاً نا پسندیدہ ہے اس لیے قربانی کے لئے ایسا جانور نہ خریدا جائے اور اگر خرید چکے ہوں تو مالک نصاب کو چاہیے کہ اس کے بدلے اس سے زائد قیمت کا دوسرا جانور قربان کرے۔

2- فقہائے کرام نے حاملہ جانور کے ذبح کو مکروہ قرار دیا ہے، چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں فتاویٰ قاضی خان کے حوالے سے ہے:

شَاةٌ أَوْ بَقَرَةٌ أَشْرَفَتْ عَلَى الْوِلَادَةِ قَالُوا يُكْرَهُ ذَبْحُهَا؛ لِأَنَّ فِيهِ تَضْيِيعَ الْوَلَدِ، [مجموعة من المؤلفين ,الفتاوى الهندية ,5/287]

ترجمہ: بکری یا گائے کے بچہ جننے کا وقت قریب ہو تو فقہا اسے ذبح کرنا مکروہ قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں تضییع ولد ہے۔

محیط برہانی میں ہے:

وفي «النوازل» أيضاً: رجل له شاة حامل، فأراد ذبحها، فإن تقاربت الولادة يكره ذبحها؛ لأنه تضييع ما في بطنها من غير زيادة فائدة. [ابن مَازَةَ ,المحيط البرهاني في الفقه النعماني ,6/76]

ترجمہ: نوازل ہی میں ہے : کسی آدمی کی حاملہ بکری ہے اور وہ اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔اگر ولادت قریب ہو تو ذبح کرنا مکروہ ہے کیونکہ یہ اس کے پیٹ میں موجود بچے کو ضائع کرنا ہے بغیر کسی زائد فائدہ کے۔

یوں ہی کفایہ فی شرح الہدایہ، فتاویٰ سراجیہ، ذخیرۃ الفتاویٰ وغیرہا کتب فقہ میں فتاوی النوازل سے ایسا ہی منقول ہے۔

مگر یہاں کراہت سے کراہت تنزیہی مراد ہے کیوں کہ فقہاے کرام نے جو علت بیان کی ہے۔ وہ " تضییع ولد" ہے جو کہ ایک امر مبہم ہے جس کے وقوع کا خدشہ ہے یقین یا ظن غالب نہیں، ممکن ہے کہ بچہ ذبح کے بعد سلامت ہی رہے، چنانچہ در مختار میں ہے:

و ليس في ذبح الام اضاعة الولد لعدم التيقن بموته. [ابن عابدين ,الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,6/304]

ترجمہ: ماں کو ذبح کرنے میں بچے کو ضائع کرنا نہیں ہے بچے کی موت کے غیر یقینی ہونے کی وجہ۔

کفایہ شرح ہدایہ ج ٧ ص ٣١٠ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ میں ہے:

قلنا إباحة ذبح الحامل لأنه يتوهم أن ينفصل الجنين حيا فيذبح، أو لأن المقصود لحم الأم و ذبح الحيوان لغرض صحيح حلال كما لو ذبح ما ليس بمأكول لمقصود الجلد. [الكفاية في شرح الهداية، ج: ٧، ص: ٣١٠، دار الكتب العلمية]

ترجمہ: حاملہ جانور کے ذبح کے مباح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بچہ زندہ نکلے پھر ذبح کردیا جائے یا یہ وجہ ہے کہ ذبح سے مقصود ماں کا گوشت ہے (نہ کہ بچے کا) اور جانور کو غرض صحیح کے لئے ذبح کرنا حلال ہے، یسے غیر ماکول اللحم کو اس کی کھال حاصل کرنے کے لئے ذبح کرنا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ نے بھی فقط ناپسند قراردیا ہے آپ لکھتے ہیں:

گابھن کی قربانی اگر چہ صحیح ہے مگر ناپسند ہے۔

صاحب بہار شریعت صدر الشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے بھی فتاویٰ امجدیہ میں گابھن کی قربانی کو خلاف اولی قرار دیا ہے، آپ لکھتے ہیں:

گابھن جانور کی قربانی ہو سکتی ہے مگر گابھن ہونا معلوم ہے تو احتراز اولی ہے۔ [فتاویٰ امجدیہ، ج: 3، ص: 328]

3- ہاں کراہت تنزیہی کے تحقق کے لئے حمل کی عمر کا اعتبار ہوگا ۔رہا یہ کہ تحقق کراہت کے لئے کتنی عمر درکار ہے تو چوں کہ فقہاء نے علت ، اضافت ولد کو قرار دیا ہے تو ولد کا اطلاق جس حمل پر ہو اس حمل والے جانور کی قربانی میں ناپسندیدگی آئے گی اور ولد کا اطلاق مکمل صورت پیدا ہوجانے اور جان پڑجانے پرہوگا۔

نیز جن کتابوں میں گابھن کی قربانی کی کراہت کا ذکر ہے ان میں "اشرفت علی الولادۃ" یا "تقارب الولادۃ" کی تعبیر بتارہی ہے کہ بچہ پیدائش کے قریب ہو یا کم ازکم پیدا ہونے کے لائق ہو، اور جب تک جان نہ پڑجائے پیدا نہیں ہوسکتا ہے، اس سے پہلے سقوط حمل ہوتا ہے نہ کہ پیدائش، لہذا وہ حمل جو بہت کم مدت کاہو وہ تحقق کراہت کا سبب نہیں بن سکتا ایسے کم مدتِ حمل والے جانور کی قربانی میں کوئی مضائقہ اصلا نہیں۔

چنانچہ صدر الشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی نے ارشاد فرمایا ہے:

اگر صرف پندرہ بیس روز کا گابھن ہے تو اس میں کسی قسم کا کوئی مضائقہ نہیں ۔ ( فتاویٰ امجدیہ ج ٣ص ٣٢٨)

بلکہ روح پڑنے سے پہلے تک کوئی کراہت نہیں ہونی چاہیے، واللہ تعالٰی اعلم۔
كتبه:
محمد شہباز انور البرکاتی المصباحی
اتردیناج پور، بنگال، ہند
۱۷ جمادی الاولی ۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح:
مناظر اہل سنت، فقيہ النفس مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی دامت برکاتھم العالیہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.