Headlines
Loading...
کیا صرف سرکاری رجسٹری مالک ہونے کے لیے کافی ہے؟

کیا صرف سرکاری رجسٹری مالک ہونے کے لیے کافی ہے؟

Question S. No. #122

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مفتیان کرام مسئلہ ذيل میں کیا فرماتے ہیں کہ زيد نے اپنے چار بیٹوں میں سے ایک کو زمینوں میں سے تھوڑی سی زمین رجسٹری کردی لیکن اپنی حیات میں زید نے الگ سے قبضہ نہیں دیا، اس سبب سے کہ چاروں بیٹے زید کی حیات میں ایک ساتھ تھے اور سب کی کمائی اور تمام زمین کی پیداوار باپ کے پاس جمع ہوتی رہی تو کیا ایسی صورت میں سرکاری رجسٹری ہبہ مع قبضہ مانا جائے گا یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: محمد اشفاق عالم

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

خلاصۂ سوال و جواب:

نوٹ: (چوں کہ سوال و جواب اصطلاحی زبان میں ہے اس لیے عام قارئین کے لیے اس کا آسان مطلب پیش کیا جاتا ہے۔)

سوال: سوال یہ ہے کہ اگر باپ اپنے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹے کے نام زمین کی رجسٹری کردے لیکن زندگی میں اس زمین کو الگ کر کے بیٹے کے قبضے میں نہ دے، تو صرف باپ کا سرکاری رجسٹری کروا دینا شرعاً معتبر ہوگا یا نہیں؟

جواب: اگر باپ اپنے چار بیٹوں میں سے ایک بیٹے کے نام زمین کی رجسٹری کردے لیکن زندگی میں اس زمین کو الگ کر کے بیٹے کے قبضے میں نہ دے، تو صرف باپ کا سرکاری رجسٹری کروا دینا شرعاً معتبر نہیں۔ جب تک باپ زمین کو بیٹے کے قبضے میں نہ دے بیٹا مالک نہیں ہوگا۔ باپ ہی اس کا مالک رہے گا اور مرنے کے بعد وہ زمین تمام وارثوں میں تقسیم ہو گی۔

تفصیلی جواب:

هبہ کے تام ہونے کے لیے قبضہ ضروری ہے۔ شی مشاع میں قبضہ اسی وقت پایا جائے گا جب کہ اس کو تقسیم کرکے اور غیر موہوب (یعنی جو اسے ہبہ نہیں کی گئی اس) سے ممتاز کرکے موہوب کو سپرد کردیا جائے۔

صورت مستفسرہ میں زمین مشاع ہے جس کو نہ تقسیم کیا گیا ہے نہ ممتاز بلکہ وہ باپ (واہب) کی کھیتی میں مشغول ہے اور یہ تینوں چیزیں ہبہ کے شرائط سے ہیں جو یہاں مفقود ہیں۔ اور رجسٹری ہبہ تو ہے لیکن قبضہ نہیں ہے لہذا یہ ہبہ تام نہیں ہوگا اور تاحیات اس کا مالک باپ ہی رہا تو یہ موہوب زمین بھی اس کی وفات کے بعد اس کا ترکہ ہو کر اسی کے وارثین میں تقسیم ہوگی، صورت مسئولہ کا حکم یہی ہے۔

در مختار میں ہے:

(وَتَتِمُّ) الْهِبَةُ (بِالْقَبْضِ) الْكَامِلِ (وَلَوْ الْمَوْهُوبُ شَاغِلًا لِمِلْكِ الْوَاهِبِ لَا مَشْغُولًا بِهِ فِي مَحُوزٍ مَقْسُومٍ وَمَشَاعٍ لَا، يُقْسَمَ لا فِيمَا يُقْسَمُ وَلَوْ لِشَرِيكِهِ فَإِنْ قَسَمَهُ وَسَلَّمَهُ صَحَّ ) لِزَوَالِ الْمَانِعِ (وَلَوْ سَلَّمَهُ شَائِعًا لَا يَمْلِكُهُ فَلَا يَنْفُذُ تَصَرُّفُهُ فِيهِ). [ابن عابدين ,الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 5/ 690-692]

فتاوی رضویہ میں ہے:

نام لکھا دینا ہبہ ہے اور ہبہ جائداد صالحِ قسمت كا بلا تقسیم صحیح و نافذ نہیں۔ (فتاوی رضویہ، 54 ،کتاب الهبة ، رضا اکیڈمی)
كتبه:
محمد اکمل اشفاقی مصباحی
المتدرب علی الافتاء بالجامعۃ الاشرفیۃ
تاریخ
الجواب صحیح:
مفتی نظام الدین الرضوی المصباحی دامت برکاتہم العالیہ


مشاع

  • 1- مشاع اُس چیز کو کہتے ہیں  جسکے ایک جز و غیر متعین کا یہ مالک ہو یعنی دوسرا شخص بھی اس میں   شریک ہو یعنی دونوں  حصوں  میں   امتیاز نہ ہو۔ اسکی  دوقسمیں   ہیں ۔ ایک قابل قسمت جو تقسیم ہونے کے بعد قابل انتفاع باقی رہے جیسے زمین، مکان۔ دوسری غیر قابل قسمت کہ تقسیم کے بعد اس قابل نہ رہے جیسے حمام، چکی ، چھوٹی سی کوٹھری کہ تقسیم کردینے سے ہرایک کا حصہ بیکار سا ہوجاتا ہے۔ مشاع غیر قابل قسمت کا وقف بالا تفاق جائز ہے اور قابل قسمت ہو اور تقسیم سے پہلے وقف کرے تو صحیح یہ ہے کہ اسکا وقف جائز ہے۔ (بہار شریعت، ج: 2، ص: 542، دعوت اسلامی)

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.