Headlines
Loading...
کافر کا جوٹھا پاک ہے یا ناپاک؟

کافر کا جوٹھا پاک ہے یا ناپاک؟

Question S. No. #95

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے اہلسنت کہ جوٹھا کافر کا پاک ہے یا ناپاک؟ اگر کوئی کافر سہواً یا قصداً حقہ یا پانی پی لے کیا حکم ہے؟ ترجمہ بزبان اردو ضرور بالضرور ہر مسئلہ میں تحریر فرماتے جائیے تاکہ عام لوگ بخوبی سمجھ لیا کریں۔ بینوا توجروا كثيرا
سائل:

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب: کافر ناپاک ہیں۔

قال الله تعالی: اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ

( البقرة: 28)

ترجمہ: کافر ناپاک ہیں۔

یہ ناپاکی ان کے باطن کی ہے۔ پھر اگر شراب وغیرہ نجاستوں کا اثر ان کے منہ میں باقی ہو تو ناپاکی ظاہری بھی موجود ہے اور اس وقت ان کا جوٹھا ضرور ناپاک ہے اور حقہ وغیرہ جس چیز کو ان کا لعاب لگ جائے گا ناپاک ہو جائے گی۔

تنویر الابصار میں ہے:

سؤر شارب خمر فور شربها وهرة فور أكل فأرة نجس [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٢٢٣/١]

ترجمہ: شراب پینے کے بعد کا شرابی کا جوٹھا اور چوہا کھانے کے بعد بلی کا جھوٹا نجس ہے۔

یوں ہی اگر کافر شراب خور کی مونچھیں بڑی بڑی ہوں کہ شراب مونچھوں میں گئی تو جب تک مونچھیں دھل نہ جائیں گی پانی وغیرہ جس چیز کو لگیں گی ناپاک کردیں گی۔

درمختار میں ہے:

ولو شاربه طويلا لا يستوعبه اللسان فنجس ولو بعد زمان [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٢٢٣/١]

اگر اس کی مونچھیں اتنی لمبی ہوں کہ انہیں زبان نہ گھیر سکے تو نجس ہے، اگرچہ کچھ دیر کے بعد ہی پیے۔

اور اگر ظاہری نجاستوں سے بالکل جدا ہو تو اس کے جھوٹے کو اگرچہ کتے کے جوٹھے کی طرح ناپاک نہ کہا جائے گا۔

سؤر آدمي مطلقا) ولو جنبا أو كافرا طاهر الفم طاهر. [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٢٢١/١]

ترجمہ: تنویر اور درر میں ہے آدمی کا جوٹھا مطلقاً پاک ہے اگرچہ جنبی ہویا کافر بشرطیکہ اس کا منہ پاک ہو۔

مختصراً اگر چہ ہر چیز ناپاک نہ ہو طیب و بے دغ دغہ ہونا ضروری نہیں ۔ رینٹھ بھی ناپاک نہیں، پھر کون عاقل اسے اپنے لب وزبان سے لگانے کو گوارا کرے گا؟ کافر کے جوٹھے سے بھی بحمد الله تعالی مسلمانوں کو ایسی ہی نفرت ہے۔ اور نفرت ان کے ایمان سے ناشی ہے۔

وفي دفعه عن قلوبهم إسقاط شناعة الكفرة عن أعينهم أو تخفيفها و ذلك غش بالمسلمين وقد صرح العلماء كما في العقود الدرية وغيرها أن المفتي إنما يفتي بما يقع عنده من المصلحة و مصلحة المسلمين في إبقاء النفرة عن الكفرة لا في إلقائها

ترجمہ: اور ان کے دلوں سے اس کے(کافر کے جوٹھے سے نفرت) اٹھانے میں ان کی آنکھوں سے کفار کی برائی دور کرنا ہے یا کم کرنا اور مسلمانوں کے ساتھ دھوکا ہے۔ اور تحقیق علماء نے تصریح کی ہے جیسا کہ عقود دریہ وغیرہ میں ہے بےشک مفتی وہ فتوی دے جس میں اس کے نزدیک مسلمانوں کا بھلا ہو۔ اور مسلمانوں کا بھلا کافروں سے نفرت باقی رکھنے میں ہے نہ اس کے ختم کرنے میں۔ ولہذا جو شخص دانستہ اس کا جوٹھا کھائے پیے مسلمان اس سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ وہ مطعون ہوتا ہے۔ اس پر محبت کفار کا گمان ہوجاتا ہے۔ اور حدیث میں ہے:

منْ كانَ يؤمِنُ باللَّهِ واليومِ الآخِرِ فلا يقِفَنَّ مواقِفَ التُّهمِ

ترجمہ: جو الله تعالی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو تہمت کی جگہ کھڑا نہ ہو۔

متعدد حدیثوں میں ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"إياك و ما یسوء الأذن"

ترجمہ: اس بات سے بچ جو کان کو بری لگے۔

رواه الإمام أحمد عن ابي الغادية والطبراني في الكبير وابن سعد في طبقات والعسكري في الأمثال وابن مندة في المعرفة والخطيب في الموتلف كلهم عن أم العادية عمة العاص بن عمرو الطفاوي و عبدالله بن احمد الإمام في زوائد المسند و أبو نعیم و ابن مندة كلاهما في العرفة عن العاص المذكور مرسلا وأبو نعيم فيها عن حبيب بن الحارث رضی الله تعالی عنهم

نیز بہت حدیثوں میں ہے رسول الله صلی الله علیہ سلم فرماتے ہیں:

إیاك وكل أمر يعتذر منه

ترجمہ: ہر اس بات سے بچ جس میں عذر کرنا پڑے۔

رواه الضياء في المختارة والديلمی کلاهما بسند حسن عن أنس والطبراني في الأوسط عن جابر وابن بنيع ومن طريقة العسكري في أمثاله و القضاعي في مسنده معا والبغوی ومن طريقة الطبرانی فی أوسطه والمخلص في السادس من فوائده وأبو محمد الإبراهيمي في كتاب الصلوة و ابن النجار في تاريخه كلهم عن ابن عمرو الحاكم في صحيحه والبيهقي في الزهد و العسكري في الأمثال و أبونعیم في المعرفة عن سعد أبی وقاص و أحمد و ابن ماجة بسند أحسن و ابن عساكر عن أبي أیوب الأنصاري كلهم رافعيه إلى النبي صلى الله تعالی علیه وسلم و البخاري في تاريخه و الطبراني في الكبير و ابن مندة عن سعد بن عمارة من قوله رضي الله تعالی عنهم أجمعين

اور حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"بشروا ولا تنفروا" رواه الائمة أحمد والبخاری و مسلم والنسائي عن أنس رضی الله تعالی عنه

ترجمہ: بشارت دو اور وہ کام نہ کرو جس سے لوگوں کو نفرت پیدا ہو۔

پھر اس میں بلاوجہ شرعی فتح باب غیبت ہے اور غیبت حرام (فما أدى إليه فلا أقل أن يكون مكرها) تو دلائل شرعیہ و احادیث سے ثابت ہوا کہ کافر کے جھوٹے سے احتراز ضرور ہے۔

وكم من حكم يختلف باختلاف الزمان بل والمكان كما تشهد به فروع جمعه في كتب الأئمة هذا ماعندی و به افتيت مرارا والله ربی علیه معتمدی وإليه مستندی والله سبحانه و تعالی أعلم

اور بہت سے احکام اختلاف زمانہ کے ساتھ بلکہ اختلاف مکان کے ساتھ مختلف ہو جاتے ہیں۔ اس کی شہادت وہ فروع ہیں جو کتب ائمہ میں جمع ہیں۔ یہ وہ ہے جو میرے پاس ہے اور میں نے اس کے ساتھ کئی با فتوی دیا ہے اور الله تعالی میرارب ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میری سند ہے۔ اور الله پاک و بلند خوب جانتا ہے۔
کتبہ: العبد المذنب احمد رضا عفي عنه بحمد ن المصطفیٰ صلی الله عليه وسلم

(ماخوذ از احکام شریعت، حصہ اول، ص: ۱۳)

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.