Headlines
Loading...
قربانی کے جانور میں دیوبندی وہابی وغیرہ بدمذہب کی شرکت کا حکم

قربانی کے جانور میں دیوبندی وہابی وغیرہ بدمذہب کی شرکت کا حکم

Question S. No. #81

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ:

اگر قربانی کے بڑے جانور میں ایک حصہ یا چند حصوں میں کوئی دیوبندی شریک ہو جائے؛ تو قربانی ہوگی ،یا نہیں؟ جب کہ ذبح کرنے والا سنی صحیح العقیدہ ہی ہو؟

مزید یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ اگر ذبح کرنے والا بھی دیوبندی ہو تو کیا حکم ہے؟

زید جو خود کو قادری چشتی بھی لکھتا ہے، کہتا ہے کہ دیوبندی زیادہ سے زیادہ بدعتی ہیں، کافر نہیں، اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ بعض دیوبندی علما کی بعض عبارت پر بعض علما نے گرفت کی ہے اور بعض نے انہیں کافر بھی کہا ہے لیکن اب وہ دیوبندی علما نہیں رہے۔ اب جو علما ہیں وہ ان عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں اس لیے ان کا ذبیحہ بھی جائز اور حصے میں شریک کرنا بھی درست ہے۔ بینوا و توجروا

المستفتی: بلال رضا عطاری مدنی، کانپور

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

بڑے جانور کی قربانی کے حصوں میں سے ایک حصہ میں بھی اگر کوئی دیوبندی یا اور کوئی مرتد شامل ہو گیا؛ تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوگی۔ اگرچہ ذبح کرنے والا سنی ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر معاذ اللہ ذبح کرنے والا دیوبندی ہی ہے تب تو وہ جانور ہی مردہ ہو گیا اس کا کھانا بھی حرام۔

چونکہ قربانی کے شرکا میں سے ہر ایک کا مسلمان ہونا ضروری ہے بلکہ مسلمان ہونا ہی کافی نہیں ، قربت (ثواب) کی نیت ہونا بھی ضروری ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی ایک شریک ثواب کی نیت نہ کرے، یعنی اس کا مقصود گوشت لیناہو تو اس صورت میں بھی کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔

عالمگیری میں ہے:

وَلَوْ كَانَ أَحَدُ الشُّرَكَاءِ ذِمِّيًّا كِتَابِيًّا أَوْ غَيْرَ كِتَابِيٍّ وَهُوَ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ يُرِيدُ الْقُرْبَةَ فِي دِينِهِ لَمْ يُجْزِئْهُمْ عِنْدَنَا؛ لِأَنَّ الْكَافِرَ لَا يَتَحَقَّقُ مِنْهُ الْقُرْبَةُ، فَكَانَتْ نِيَّتُهُ مُلْحَقَةً بِالْعَدَمِ، فَكَأَنْ يُرِيدَ اللَّحْمَ وَالْمُسْلِمُ لَوْ أَرَادَ اللَّحْمَ لَا يَجُوزُ عِنْدَنَا. [مجموعة من المؤلفين، الفتاوى الهندية، ٣٠٤/٥]

ان دیابنہ کے مولویوں نے سرکار دوعالم - ﷺ - کی شان اقدس میں صریح گستاخیاں کی ہیں، جن کے کفر سے متعلق علمائے حرمین شریفین نے کفر کا فتویٰ دیا اور فرمایا کہ کہ جو ان کے کفر میں اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ۔ اس کی تفصیل فتاویٰ حسام الحرمین میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد برصغیر کے جن جن علمائے اہلسنت سے ان سے متعلق حکم پوچھا گیا تو تمام نے وہی حکم دیا؛ جو فتاویٰ حسام الحرمین میں ہے۔ اس کی تفصیل الصوارم الھندیہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

فتاویٰ حسام الحرمین اور الصوارم الھندیہ کے بعد ماضی قریب اور دورہ حاضر کے علمائے اہل سنت کے فتاویٰ جات میں بھی یہی مذکور ہے۔

مفتئ جامعہ اشرفیہ مبارکپور شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ایک استفتا کے جواب میں رقم فرماتے ہیں:

یہاں کے روافض مرتد ہیں، عالمگیری میں ہے: أحكامهم احكام المرتدين.

یہاں سے مراد آج کل ہندوستان میں پائے جانے والے روافض ہیں، اسی طرح وہابی، دیوبندی بھی کافر و مرتد ہیں اس لیے کہ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد سوم ص:81)

فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ کے تصدیق شدہ فتوے کا بھی ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

جب نصرانی کی شرکت کے ساتھ قربانی جائز نہیں تو غیر مقلد و دیوبندی جو کہ نصرانی سے بدتر اور خبیث تر ہیں اس کی شرکت کے ساتھ بدرجہ اولی جائز نہیں۔ سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی ﷲ عنہ ربہ القوی تحریر فرماتے ہیں:

کفر اصلی کی ایک سخت قسم نصرانیت ہے اور اس سے بدتر مجوسیت، اس سے بدتر بت پرستی، اس سے بدتر وہابیت، ان سب سے بدتر اورخبیث تر دیوبندیت، اھ" (فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص:3) لہذا غیر مقلد اور دیوبندی کچی شرکت کے ساتھ بڑے جانور کی قربانی کرنا جائز نہیں۔ (فتاویٰ فقیہ ملت ج: 2، ص: 249)

بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی مصباحی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :

قربانی کے جانور میں دیوبندی شریک ہو تو سنی کی قربانی نہیں ہوگی، دیوبندیوں پر علمائے عرب و عجم نے کفر کا فتوی دیا ہے۔ اسی طرح سنی کی شادی بھی دیوبندی سے نہیں ہوسکتی مرد ہو یا عورت۔ واللہ تعالی اعلم (فتاویٰ بحر العلوم، كتاب الأضحية، ج: ۵، ص: ۱۸۹)

محقق مسائل جدیدہ سراج الفقہا حضرت مفتی نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ (صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور ) کے تصدیق شدہ فتوے کا بھی اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

دیوبندی مذہب کے مولوی اشرف علی تھانوی، قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی اور خلیل احمد انبیٹھوی کو ان کے کفریات قطعیہ کی بنا پر مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، ہند و پاک، بنگلہ دیش اور برما کے سینکڑوں علمائے کرام و مفتیان عظام نے کافر و مرتد قرار دیا ہے جس کی تفصیل ”فتاویٰ حسام الحرمین“ اور "”لصوارم الھندیہ“ میں ہے۔ اور سارے دیوبندی ان کو اپنا پیشوا اور مسلمان مانتے ہیں اور ان کے حامی ہیں تو وہ بھی مرتد کے حکم میں ہیں۔ لہذا بڑے جانور کی قربانی میں وہابی، دیوبندی تبلیغی، رافضی وغیرہ ان میں کا کوئی بھی شریک ہوگا تو ہرگز کسی کی قربانی نہ ہوگی اور واجب ان کے ذمے سے ساقط نہ ہوگا۔ اس لیے ہرشخص پر لازم ہے کہ پوری تحقیق سے معلوم کرے کہ کوئی بدمذہب حصے میں شریک تو نہیں۔ (فتاویٰ مرکزی تربیت افتا ج:2،ص:328/ 329)

زید کا یہ کہنا کہ ”اب جو علما ہیں وہ ان عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں اس لیے ان کا ذبیحہ بھی جائز اور حصے میں شریک کرنا بھی درست“

یہ کہنا کسی لحاظ سے درست نہیں، تاویل کی گنجائش صریح میں نہیں ہوتی ۔

شفا شریف میں ہے:

التأويل فِي لفظ صراح لَا يقبل [القاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفى - وحاشية الشمني، ٢١٧/٢]

آج کے دیوبندی فارغین وعلما جو ان کے عقائد کفریہ پر مطلع ہوکر بھی انھیں مسلمان، بلکہ اپنا پیشوا سمجھتے ہیں؛ وہ بھی اسی حکم میں ہیں ۔

یہاں تک کہ ہر وہ شخص جو ان دیوبندی علماء (جن پر علماے عرب و عجم نے کفر و ارتداد کا حکم لگایا) کے عقائد کوصحیح ٹھہراے یا ایسے کفریہ عقائد والے کو ان کے عقائد پر مطلع ہو کر مسلمان سمجھے خواہ وہ اس دور کا ہو، یا ماضی کا، یا مستقبل میں آئے۔ اگرچہ اپنے آپ کو سنی قادری چشتی کہے، سب کا حکم ایک ہے۔ یعنی وہ کافر و مرتد ہے ۔ ایسے شخص کو بھی قربانی کے جانور میں شریک کرنے سے کسی کی قربانی نہیں ہوگی، اور اگر ایسا شخص جانور ذبح کرے تو جانور ہی حرام۔

زید اپنی اس طرح کی گفتگو سے صلح کلیت کا شکار معلوم ہوتا ہے؛ لہذا ایسے اشخاص سے دور رہنا لازم ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
محمد وسيم أكرم الرضوي
خادم التدريس جامعة المدينه نيپال
۹ ذي الحجه ۱۴۴۲ھ
مطابق 20 جولائی 2021

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.