Headlines
Loading...
کیا عورتیں حمل روکنے کے لیے انجکشن لگوا سکتی ہیں؟

کیا عورتیں حمل روکنے کے لیے انجکشن لگوا سکتی ہیں؟

Question S. No. #34

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج کل عورتیں حمل کو روکنے کے لیے انجکشن لگواتی ہیں کیا یہ جائز ہے؟

المستفتی: عرفان خان عطاری

وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوهاب:

قوّتِ تولید دائمی طور پر ختم کردینا مطلقاً نا جائز و حرام ہے خواہ مرد یا عورت کی نسبندی کے ذریعے ہو یا ایسی دوا کھانے یا انجکشن لگانے کے ذریعے ہو جو قوّتِ تولید ہمیشہ کے لیے ختم کردے۔ البتہ حمل سے بچنے کے لیے عارضی تدابیر اختیار کرنا اعذار کے پائے جانے کی صورت میں تو بلا کراہت جائز ورنہ مکروہ۔

فتاویٰ مصطفویہ میں ہے:

دائمی ضبطِ تولید کے لیےمرد کی نسبندی یا عورت کا آپریشن متعدّد وجوہ سے شرعاً نا جائز و حرام ہے ـ
وجہِ اوّل: اس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیز کو بدلنا ہے اور یہ قرآن و حدیث کی رو سے نا جائز و حرام ہے، قرآنِ مقدّس میں ہے:

وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِؕ (سورۂ نساء آیت ۱۱۹)
ترجمہ: اور ضرور انہیں کہوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزبدل دیں گے

تفسیرِ صاوی میں ہے:

"من ذلك تغيير الجسم "(حاشية الصاوي، سورۃ النساء ۱۱۹ ج ۱ ص ۲۳۱)

ترجمہ: اور اس میں سے جسم کی تغییر ہے ـ

اور تفسیرِ کبیر میں ہے:

إن معنى تغيير خلق الله ههنا هو الإخصاء (التفسير الكبير ج ۴ ص ۲۲۳)

یعنی اس میں تغییرِ خلق کا معنی خصی کرنا وغیرہ ہے ـ بخاری و مسلم کی حدیث ہے:

لعن الله المغيرات خلق الله (أخرجه البخاري في "صحيحه" فتح الباري (8/ 630)، كتاب التفسير، حديث رقم (4886). ومسلم في "صحيحه" شرح النووي (14 /105 - 107) كتاب اللباس والزينة.)

یعنی اللہ کی لعنت ان عورتوں پر جو اللہ کی پیدا کی ہوئی (جسم کی قدرتی بناوٹ) کو بدلنے والی ہیں ـ
وجہِ دوم: اس میں بے وجہِ شرعی ایک نس اور عضو کاٹا جاتا ہے وہ بھی ایک ایسی نس ایسا عضو جو توالد و تناسل کا ذریعہ ہے۔
وجہِ سوم: بے ضرورتِ شرعی دوسرے کے سامنے ستر وہ بھی سترِ غلیظ کھولا جاتا ہے۔
وجہِ چہارم: اور ستر کو چھوا بھی جاتا ہے۔

اور یہ سب امور نا جائز و حرام ہیں کما فی عامۃ کتب الفقہ۔ (فتاویٰ مصطفویہ ص ۵۳۱ مطبوعہ مکتبہ فقیہِ ملت دہلی)

نیز حضور مفتئ اعظمِ ہند قدس اللہ اسرارہ فرماتے ہیں:

"الحاصل نسبندی یا آپریشن شریعتِ اسلامیہ میں ہرگز جائز نہیں لہذا اس سے نفرت و احتراز لازم ہے" (فتاویٰ مصطفویہ ص ۵۳۱ مطبوعہ مکتبہ فقیہِ ملت دہلی)

عارضی طور پر ضبطِ تولید کی تدابیر اختیار کرنا جائز ہے۔

حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

كنا نعزل والقرآن ينزل. متفق عليه. وزاد مسلم فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فلم ينهنا. ( بخاری شریف ج۳ ص ۷۸۴ باب العزل)

رد المحتار میں "قال الکمال " کے تحت ہے:

"عبارته: وفي الفتاوى: إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغیر رضاها لفساد الزمان فليعتبر مثله من الأعذار مسقطا لإذنها اھ وقول الفتح فليعتبر مثله : يحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد أو في دار الحرب فيخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق و یرید فراقها فخاف أن تحبل اھ ملخصا " (رد المحتار ج ۲ ص ۴۱۲ باب نکاح الرقیق)

فتاوی قاضی خان میں ہے کہ اگر بچے کے بد اطوار ہونے کا اندیشہ ہو اور عورت آزاد ہو تو بھی شوہر بیوی کی رضا مندی کے بغیر عزل کرسکتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے اعذار بیوی سے اذن کے حکم کو ساقط کر دیں گے۔

علامہ شامي فرماتے ہیں کہ فتح کے قول: فليعتبر مثله" (اس طرح کے اعذار معتبر ہوں گے ) سے ہوسکتا ہے کہ ان کی مراد اس طرح کے اعذار کو عذر مسقط کے ساتھ لاحق کرنا ہو مثلا دور دراز سفر یا دارالحرب میں ہو اور بچے کی جان کا اندیشہ ہو یا بیوی کی بدخلقی کی بنا پر اس سے جدائی کا ارادہ رکھتا ہو اس لیے اس کے حاملہ ہونے سے ڈرتا ہوتو اسے بیوی سے پوچھے بغیر عزل کی اجازت ہے۔

اور عارضی طور پر حمل سے روک تھام کے لیے سب سے مناسب اور بے ضرر تدبیر نرودھ(کنڈوم) کا صحیح استعمال ہے، کہ حمل سے روک تھام کے لیے ضرر رساں تدابیر اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه: احتشام الحق رضوی مصباحی
۱۲/شوال المکرم ۱۴۴۲ ھ مطابق ۲۳/مئی ۲۰۲۱

1 تبصرہ


  1. السلام وعلیکم
    حضور فتاویٰ میں اگر مُشکل الفاظ کے آسان معنی بھی ( )→ میں لکھ دیا کریں تو بڑی آسانی ہوگی۔
    جزاک اللہ خیرا

    جواب دیںحذف کریں

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.