Headlines
Loading...
کیا رات میں قربانی کرسکتے ہیں؟

کیا رات میں قربانی کرسکتے ہیں؟

Question S. No. #70

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

سوال: کیا فرماتے علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا عید الاضحٰی کی رات میں قربانی کرنے میں کوئی کراہت تو نہیں اور طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت قربانی ہو سکتی یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی۔

المستفتی: محمد لقمان اشرفی

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب: قربانی کے وقت کے اندر جس وقت بھی قربانی کریں بلا کراہت جائز ہے، البتہ رات میں غلطی کے احتمال کی وجہ سے مکروہ تنزیہی خلاف اولی ہے، اگر اتنی روشنی موجود ہے کہ غلطی کا احتمال نہ رہے یا پھر ایسی ضرورت پیش آجاۓ مثلأ صبح کے انتظار میں جانور مر جائے گا، تو اب رات میں بھی بلا کراہت جائز ہے۔

در مختار میں ہے۔

(وكره) تنزيها (الذبح ليلا) لاحتمال الغلط. [الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار، صفحة ٦٤٦]

ترجمہ: رات میں ذبح کرنا غلطی کے احتمال کی وجہ سے مکروہ تنزیہی ہے۔

مجدد اعظم اعلی حضرت رحمة الله عليه فرماتے ہیں :

رات کو ذبح کرنا اندیشہ غلطی کے باعث مکروہ تنزیہی خلاف اولی ہے۔ اور ضرورت واقع ہو مثلاً صبح کے انتظار میں جانور مر جائے گا تو کچھ کراہت نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج: ١٤ ص: ٤٤١، امام احمد رضا اکیڈمی)

یہاں درمیان کی وہ دو راتیں مراد ہیں جو ایام نحر میں داخل ہیں، یعنی گیارہویں اور بارہویں شب لہذا دسویں اور تیرویں شب میں قربانی سرے سے ہوگی ہی نہیں، کیونکہ قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک ہے یعنی تین دن اور دو راتیں، البتہ شہر میں نماز عید سے قبل قربانی جائز نہیں۔

عنایہ میں ہے:

(وَيَجُوزُ الذَّبْحُ فِي لَيَالِيهَا) أَيْ فِي لَيَالِي أَيَّامِ النَّحْرِ الْمُرَادُ بِهَا اللَّيْلَتَانِ الْمُتَوَسِّطَانِ لَا غَيْرُ، فَلَا تَدْخُلُ اللَّيْلَةُ الْأُولَى وَهِيَ لَيْلَةُ الْعَاشِرِ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ وَلَا لَيْلَةُ الرَّابِعَ عَشَرَ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، لِأَنَّ وَقْتَ الْأُضْحِيَّةِ يَدْخُلُ بِطُلُوعِ الْفَجْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ عَلَى مَا ذُكِرَ فِي الْكِتَابِ وَهُوَ الْيَوْمُ الْعَاشِرُ، وَيَفُوتُ بِغُرُوبِ الشَّمْسِ مِنْ الْيَوْمِ الثَّانِيَ عَشَرَ، فَلَا يَجُوزُ فِي لَيْلَةِ النَّحْرِ أَلْبَتَّةَ لِوُقُوعِهَا قَبْلَ وَقْتِهَا وَلَا فِي لَيْلَةِ التَّشْرِيقِ الْمَحْضِ لِخُرُوجِهِ،

وَإِنَّمَا جَازَتْ فِي اللَّيْلِ لِأَنَّ اللَّيَالِيَ تَبَعٌ لِلْأَيَّامِ، وَأَمَّا الْكَرَاهَةُ فَلِمَا ذَكَرَهُ فِي الْكِتَابِ. [البابرتي، العناية شرح الهداية، ٥١٣/٩]

ترجمہ: ایام قربانی کی راتوں میں قربانی کرنا جائز ہے، اور ان راتوں سے مراد صرف دو درمیانی راتیں ہیں، لہٰذا پہلی یعنی دسویں ذی الحجہ کی رات اور چودہ ذی الحجہ کی رات ان میں داخل نہیں، اس لیے کہ قربانی کا وقت دسویں ذی الحجہ کی طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے اور بارہویں ذی الحجہ کے غروب شمس پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے (دسویں ذی الحجہ کی) رات میں قربانی وقت سے پہلے ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی صرف تشریق کی رات میں جائز ہوگی کیوں کہ وقت قربانی نکل چکا۔

اور رات میں قربانی اس لیے جائز ہے کیوں کہ راتیں دنوں کے تابع ہوتی ہیں۔ اور رہی کراہت تو اس کی وجہ وہ ہے جسے مصنف نے کتاب میں ذکر کیا یعنی غلطی کا اندیشہ۔

شامی میں ہے:

(قَوْلُهُ لَيْلًا) أَيْ فِي اللَّيْلَتَيْنِ الْمُتَوَسِّطَتَيْنِ لَا الْأُولَى وَلَا الرَّابِعَةُ، إذْ لَا تَصِحُّ فِيهِمَا الْأُضْحِيَّةَ أَصْلًا كَمَا هُوَ الظَّاهِرُ. [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٢٠/٦]

ترجمہ: جن راتوں میں قربانی جائز ہے ان سے مراد دو درمیانی راتیں ہیں نہ کہ پہلی اور چوتھی اس لیے کہ ان راتوں (پہلی اور چوتھی) میں قربانی اصلاً جائز نہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

كتبه: بلال رضا عطاری
متعلم: جامعۃ المدینہ، نیپال
٢١ ذو القعدۃ الحرام ١٤٤٢ھ
الجواب صحیح: مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.