Headlines
Loading...
بقر عید کے دن عقیقہ کرنے اور قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنے کا حکم

بقر عید کے دن عقیقہ کرنے اور قربانی کے جانور میں عقیقہ کرنے کا حکم

Question S. No. #64

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال: اگر کوئی بندہ بقرہ عید کے دن قربانی کرے اور چاہتا ہے کہ عقیقہ بھی کرے تو کیا عید کے دن عقیقہ کرنا درست ہے یا نہیں۔ نیز یہ بھی بتائیں کے بچے کے عقیقہ کے لیے قربانی والے جانور کے ساتھ ایک اور جانور ذبح کرنا ہوگا یا دو جانور عقیقے کے الگ سے کرنے ہوں گے ؟

براۓ کرم اس سوال کا جواب مع حوالہ عنایت فرما دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔
سائل: محمد فاروق نقشبندی باڑمیر راجستھان
۲۵ ذو القعدة الحرام ۱۴۴۲ھ

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

عید کے دن عقیقہ کرنا بالکل جائز ہے نیز بڑے جانور کی قربانی میں عقیقے کا حصہ رکھنا بھی جائز ہے الگ سے عقیقے کا جانور لینا ضروری نہیں،‌ ہاں اگر چھوٹا جانور (بکرا، دنبہ، بھیڑ وغیرہ) قربانی کے لیے ہے تو اب اس میں دوسرا کوئی حصہ شامل نہیں کر سکتے بلکہ عقیقے کے لئے دوسرا جانور لینا ہوگا،

بہتر ہے لڑکے کے لیے دو بکرے اور لڑکی کے لیے ایک بکری ہو، اسی طرح حصہ رکھنے میں بھی افضل ہے کہ لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ رکھا جائے، اگر کسی نے لڑکے کے لیے ایک حصہ رکھا یا ایک بکرا ذبح کیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔

عالمگیری میں ہے :

وَلَوْ أَرَادُوا الْقُرْبَةَ - الْأُضْحِيَّةَ أَوْ غَيْرَهَا مِنْ الْقُرَبِ - أَجْزَأَهُمْ سَوَاءٌ كَانَتْ الْقُرْبَةُ وَاجِبَةً أَوْ تَطَوُّعًا أَوْ وَجَبَ عَلَى الْبَعْضِ دُونَ الْبَعْضِ، وَسَوَاءٌ اتَّفَقَتْ جِهَاتُ الْقُرْبَةِ أَوْ اخْتَلَفَتْ... كَذَلِكَ إنْ أَرَادَ بَعْضُهُمْ الْعَقِيقَةَ عَنْ وَلَدٍ وُلِدَ لَهُ مِنْ قَبْلُ، كَذَا ذَكَرَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - فِي نَوَادِرِ الضَّحَايَا. [مجموعة من المؤلفين، الفتاوى الهندية، ٣٠٤/٥]

ترجمہ: ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں نے (اس جانور میں) قربانی کی قربت کی نیت کی ہو یا قربانی کے علاوہ کسی اور قربت کی نیت ہو، تو یہ نیت کرنا ان کو کافی ہوجائے گا۔

چاہے وہ قربتِ واجبہ ہو یا نفلی قربت ہو یا بعض پر واجب ہو اور بعض پر واجب نہ ہو، چاہے قربت کی جہت ایک ہی ہو یا مختلف ہو۔۔۔ اسی طرح اگر ( ایک جانور میں شریک ) لوگوں میں سے بعض نے اِس سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کے عقیقے کی نیت کی (تو بھی جائز ہے۔)

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

ایک گائے میں ایک سے سات کا عقیقہ ہوسکتا ہے۔ اگر عقیقہ کے سوا دوسرا حصہ ایک یا دو یا کتنا ہی خفیف غیر قربت مثلا اپنے کھانے کی نیت کو رکھا تو عقیقہ ادا نہ ہوگا، ہاں اگر وہ حصے بھی قربت کے ہوں، مثلا ایک حصہ عقیقہ، ایک حصہ قربانی عید الاضحی تو جائز ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج: ۲۰ ص: ۵۹۳، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اسی میں ایک اور جگہ ہے :

افضل یہ ہے کہ پسر (لڑکے) کے لیے دو نر ہوں اور دختر (لڑکی) کے لیے ایک مادہ کہ اس میں مقابلہ اعضا اکمل ہے۔ اور اگر نر ومادہ میں عکس ہو جب بھی کوئی حرج نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج: ٢٠ ص: ٥٩٣، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

فتاویٰ امجدیہ میں ہے:

عقیقہ میں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا سنت ہے، حدیث میں ہے: عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة، اور یہ ثابت کہ گائے اور اونٹ کا ساتواں حصہ قربانی میں ایک بکری کے قائم مقام ہے،

اور کتبِ فقہ میں مصرح کہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں عقیقہ کی شرکت ہوسکتی ہے۔۔۔تو جب قربانی میں عقیقہ کی شرکت جائز ہوئی، تو معلوم ہوا کہ گائے یا اونٹ کا ایک جزء عقیقہ میں ہوسکتا ہے اور شرع نے ان کے ساتویں حصہ کو ایک بکری کے قائم مقام رکھا ہے،

لہٰذا لڑکے کے عقیقہ میں دو حصے ہونے چاہیے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ یعنی ساتواں حصہ کافی ہے، تو ایک گائے میں سات لڑکیاں یا تین لڑکے اور ایک لڑکی کا عقیقہ ہوسکتا ہے۔ (فتاویٰ امجدیہ ج: ۳ ص: ۳۰۲، مکتبہ رضویہ، کراچی) واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه: بلال رضا عطاری
متعلم: جامعۃ المدینہ، نیپال
۲۵ ذو القعدۃ الحرام ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح: مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.