Headlines
Loading...
قادیانیوں سے میل جول رکھنے والے کی امامت کا حکم

قادیانیوں سے میل جول رکھنے والے کی امامت کا حکم

Question S. No. #44

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ جامع مسجد کے ایک امام صاحب کو ایک ایسے بندے نے دعوت کی جو مرزا غلام احمد قادیانی کو مانتا ہے۔

مذکورہ امام کے مجلس میں پہونچتے ہی گانا بجانا شروع ہو گیا اور امام خاموشی سے سنتا رہا اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا ایسا شخص امامت کے لائق ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: ریاض احمد ڈوڈہ، جموں کشمیر

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

قادیانی باِجماع امت کافر اور زندیق ہیں۔

علماے حرمین شریفین نے ان کے کفر کے تعلق سے فرمایا:

من شك في كفره و عذابه فقد كفر

یعنی جس نے ان کے کفر و عذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہے۔ (حسام الحرمین، باب المعتمد و المستند، مطبوعہ نیویہ لاہور ص ١٢)

فتاوی رضویہ میں ہے:

قادیانی کافر مرتد تھا ایسا کہ تمام علماے حرمین شریفین نے بالاتفاق تحریر فرمایا: ”من شك في كفره و عذابه فقد كفر“ یعنی جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا وہ بھی کافر ہے۔ (فتاوی رضویہ، ج: ۱۴، ص: ۳۹۳، مطبوعہ رضا فاونڈیشن)

ان سے تعلقات اور میل جول رکھنا جائز نہیں، اسی طرح ان سے خندہ پیشانی سے پیش آنا، مصافحہ کرنا، ملنا جلنا، اور ان کے ساتھ کھانا پینا اور ان کی خوشی اور غمی کی محافل میں شریک ہونا ناجائز اور ممنوع ہے،

قال الله تعالىٰ وَ لَا تَرْكَنُوْۤا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ الآیة، وفي الجلالين: [وَ لَا تَرْكَنُوْۤا] تميلوا [اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا] بموادة أو مداهنة أو رضى بأعمالهم [فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ]

اگر کوئی ان کے عقائد باطلہ، شنیعہ، ردیہ، دنیہ سے واقفیت کے باوجود ان کے کفر میں شک کرتا ہےاور خوشی خوشی ان کی محافل میں شریک ہوتا ہے تو وہ بھی کافر کہ من شك في كفره و عذابه فقد كفر کہ جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر جیسا کہ گزرا۔ اور اگر ان کے عقائد باطلہ، عاطلہ، رذیلہ سے بیزاری وبراءت ظاہر کرتا ہو اور انہیں کافر و مرتد سمجھتا ہو پھر بھی بلا عذر شرعی ان کی کسی محفل میں شرکت کی تو فاسق و فاجر اور مستحق عذاب نار ہے اور ایسے شخص کو امام بنانا حرام، اس کے پیچھے نماز پڑھنا گناہ ،جب تک کہ وہ اپنے اس فعل شنیع سے توبہ نہ کر لے اور اس فعل کے ارتکاب کے بعد جتنی بھی نمازیں اس کے پیچھے پڑھی گئیں سب کا اعادہ واجب و ضروری ہے۔

صغیری میں ہے:

يكره تقديم الفاسق كراهة تحریم. [الصغيري شرح منية المصلي، مباحث الإمامة، ص: ٢٦٢)

یعنی فاسق کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔

مراقی الفلاح میں ہے:

كره إمامة الفاسق العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة، وإذا تعذر منعه ينتقل منه إلى غير مسجد للجمعة وغيرها. (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوی ص ١٦٥)

ڈھول باجا لھو و لعب ہے، ہر لہو و لعب حرام ہے۔

حدیث پاک میں ہے:

بیہقی نے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، گانے سے دل میں نفاق اوگتا ہے، جس طرح پانی سے کھیتی اگتی ہے۔ ( شعب الایمان ، باب فی حفظ اللسان حدیث: ۵١٠٠، ج:۴، ص: ٢٧٩)

ایک دوسری حدیث میں ہے:

بیہقی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت کی، کہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ، اللہ تعالی نے شراب اور جوا اور کوبہ(ڈھول)حرام کیا اور فرمایا ہر نشہ والی چیز حرام ہے۔ (السنن الکبری، للبیہقی حدیث: ٢٠٩۴٣)

جو مزامیر، ڈھول، تماشے پر مشتمل محافل میں شریک ہو فاسق، فاجر، ملعون اور مستحق عذاب قہار و جبار ہے۔

ترمذی شریف میں ہے:

عن حذيفة رضي الله تعالى عنه قال: ملعون علئ لسان محمد -أو- لعن الله على لسان محمد صلى الله تعالى عليه وسلم: من قعد وسط الحلقة. (سنن الترمذي، الحدیث ٢٧۵٣)

حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص ناچ دیکھنے اور مزامیر اور گانا سننے کے لئے کسی مجلس میں بیٹھا وہ ملعون ہے۔

بہار شریعت میں ہے:

متصوفہ زمانہ کہ مزامیر کے ساتھ قوالی سنتے ہیں اور کبھی اوچھلتے کودتے اور ناچنے لگتے ہیں اس قسم کا گانا بجانا ناجائز ہے ، ایسی محفل میں جانا اور وہاں بیٹھنا ناجائز ہے۔ (بہار شریعت ج:٣، ص: ۵١۴)

اور فاسق کی امامت حرام اس کی اقتدا میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ جتنی نمازیں اس کی اقتدا میں پڑھی گئیں ان کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔

فتاوی رضویہ میں ہے :

اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے ۔ان افعال کا مرتکب ضرور فاسق معلن ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنا جائز نہیں اور پڑھی تو پھیرنا واجب ہے۔ ( فتاوی رضویہ ج٢٣ ص ٩٨ ط: رضا فاونڈیشن)

علامہ ابراہیم حلبی رحمةاللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں:

لو قدموا فاسقا يأثمون بناء على أن كراهة تقديمه كراهة تحريم لعدم اعتنائه بأمور دينه و تساهله في الإتيان بلوازمه فلا يبعد منه الإخلال ببعض شروط الصلاة و فعل ما ينافيها بل هو الغائب بالنظر إلى فسقه. [غنية، ص:۴٧٩]

در مختار میں ہے:

كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها.

یعنی ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ پڑھی گئی اس کا اعادہ واجب ہے۔

مذکورہ بالا قرآن و احادیث اور فقہاے کرام کی ان عبارتوں کی روشنی میں صورت مستفسرہ میں شخص مذکور فاسق و فاجر اور مستحق عذاب نار ہے اس کی امامت قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ اس فعل شنیع سے اعلانیہ توبہ نہ کر لے، اس فعل کے ارتکاب کے بعد اس کے پیچھے جتنی بھی نمازیں پڑھی گئیں ان کا اعادہ واجب ضروری ہے۔ واللہ تعالی ورسولہ اعلم
كتبه:
نظیر احمد القادری المصباحی
مہور، ریاسی، جموں و کشمیر
متعلم: مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی یوپی
یکم ذو القعدۃ الحرام ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح:
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ابرار احمد امجدی برکاتی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.