عورت کے کفن میں سینہ بند کی حکمت اور اس کو پہنانے کا درست طریقہ کیا ہے؟

Fatwa No #282-04

سوال: علمائے کرام و مفتیان شرع عظام کی بارگاہ میں عرض ہے کہ عورت کے کفن میں جو سینہ بند پہنایا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمارے ہاں اس کو کوئی قمیص کے اندر تو کچھ بالکل باہر، تو کچھ دو چادروں کے بیچ میں اور کچھ کرتے کے باہر۔ لہٰذا یہ بتائیں کہ افضل کہاں پر ہے اور اس کی علت و حکمت کیا ہے؟ با حوالہ جواب عنایت فرما کر ماجور ہوں۔
المستفتی: محمد سلیم رضا قادری، آر ایس پورا، جموں

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

عورت کے کفن سنت میں پانچ کپڑے ہوتے ہیں: (1) لفافہ (2) اِزار (3) قمیص (4) اوڑھنی (5) سینہ بند۔

عورت کو کفن پہنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے لفافہ بچھائیں، پھر اس پر ازار بچھائیں، پھر میت کو قمیص پہنا کر اس کے بال کے دو حصے کر کے کفنی کے اوپر سینہ پر ڈال دیں اور اوڑھنی نصف پشت کے نیچے سے بچھا کر سر پر لا کر منہ پر مثل نقاب ڈال دیں کہ سینہ پر رہے، پھر لفافہ لپیٹیں پہلے بائیں طرف سے پھر داہنی طرف سے تاکہ داہنا اوپر رہے اور سر اور پاؤں کی طرف باندھ دیں کہ اڑنے کا اندیشہ نہ رہے، پھر سب کے اوپر سینہ بند بالائے پستان سے ران تک لا کر باندھیں۔

عورت کے کفن میں سینہ بند ہونے کی وجہ ائمہ کرام نے یہ بتائی ہے کہ سینہ بند باندھیں گے تاکہ کہیں جنازے کی چارپائی کو اٹھاتے وقت عورت کے پستان اور ران میں حرکت پیدا ہو کر بے پردگی کا باعث نہ بنے۔

محیط برہانی میں عورت کے کفن سنت کے بارے میں ہے:

وَأَمَّا كَفَنُ السُّنَّةِ... لِلنِّسَاءِ خَمْسَةٌ: لِفَافَةٌ وَإِزَارٌ وَدِرْعٌ وَخِمَارٌ وَخِرْقَةٌ؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: تُكَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ.

ترجمہ: ”رہا کفن سنت... تو عورت کے لیے پانچ کپڑے ہیں: لفافہ (چادر)، ازار (تہبند)، قمیص، دوپٹہ اور سینہ بند، اس کی دلیل وہ روایت ہے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے۔“ [المحیط البرہانی، کتاب الصلاۃ، الفصل الاربعون فی الجنائز، قسم آخر فی کیفیۃ التکفین، ج: 2، ص: 171، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان]

نیز محیط برہانی، فتاویٰ ہندیہ وغیرہ کتب فقہ میں عورت کو کفن سنت پہنانے کا طریقہ اس طرح لکھا ہے:

وَأَمَّا الْمَرْأَةُ تُبْسَطُ لَهَا اللِّفَافَةُ، وَالْإِزَارُ عَلَى نَحْوِ مَا بَيَّنَّا لِلرَّجُلِ، ثُمَّ تُوضَعُ عَلَى الْإِزَارِ، وَتُلْبَسُ الدِّرْعَ، وَيُجْعَلُ شَعْرُهَا ضَفِيرَتَيْنِ عَلَى صَدْرِهَا فَوْقَ الدِّرْعِ... ثُمَّ يُجْعَلُ الْخِمَارُ فَوْقَ ذَلِكَ، ثُمَّ تُعْطَفُ اللِّفَافَةُ كَمَا بَيَّنَّا فِي الرَّجُلِ، ثُمَّ الْخِرْقَةُ بَعْدَ ذَلِكَ تُرْبَطُ فَوْقَ الْأَكْفَانِ فَوْقَ الثَّدْيَيْنِ.

ترجمہ: ”عورت کے لیے (کفن میں) لفافہ (یعنی چادر) بچھا دی جاتی ہے اور ازار (تہبند) بھی اسی طرح رکھا جاتا ہے جیسے مرد کے لیے بیان کیا گیا۔ پھر اسے ازار پر لٹایا جاتا ہے اور اسے قمیص پہنائی جاتی ہے اور اس کے بالوں کی دو چوٹیاں بنا کر قمیص کے اوپر سینے پر رکھ دی جاتی ہیں... پھر اس کے اوپر دوپٹہ (خمار) رکھا جاتا ہے۔ پھر چادر کو اسی طرح لپیٹا جاتا ہے جیسا کہ مرد کے بارے میں بیان ہوا، پھر اس کے بعد ایک کپڑا سینے پر، کفن کے اوپر باندھا جاتا ہے۔“ [المحیط البرہانی، کتاب الصلاۃ، الفصل الاربعون فی الجنائز، قسم آخر فی کیفیۃ التکفین، ج: 2، ص: 172، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان / الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی و العشرون فی الجنائز، الفصل الثالث فی التکفین، ج: 1، ص: 161، دار الفکر بیروت لبنان]

بہار شریعت میں ہے: ”عورت کو کفنی (قمیص) پہنا کر اس کے بال کے دو حصے کر کے کفنی کے اوپر سینہ پر ڈال دیں اور اوڑھنی نصف پشت کے نیچے سے بچھا کر سر پر لا کر منہ پر مثل نقاب ڈال دیں کہ سینہ پر رہے کہ اس کا طول (لمبائی) نصف پشت سے سینہ تک ہے اور عرض (چوڑائی) ایک کان کی لو سے دوسرے کان کی لو تک ہے اور یہ جو لوگ کیا کرتے ہیں کہ زندگی کی طرح اڑھاتے ہیں یہ محض بے جا و خلاف سنت ہے، پھر بدستور ازار و لفافہ لپیٹیں (یعنی تہبند لپیٹیں: پہلے بائیں جانب سے پھر داہنی طرف سے، پھر لفافہ لپیٹیں: پہلے بائیں طرف سے پھر داہنی طرف سے؛ تاکہ داہنا اوپر رہے) پھر سب کے اوپر سینہ بند بالائے پستان سے ران تک لا کر باندھیں۔“ [بہار شریعت، کفن کا بیان، ج: 1، حصہ: 4، ص: 821، مکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی]

سینہ بند باندھنے کی وجہ اور علت محیط برہانی میں ہے:

وَخِرْقَةٌ تُرْبَطُ فَوْقَ الْأَكْفَانِ مِنْ عِنْدِ الصَّدْرِ فَوْقَ الثَّدْيَيْنِ، وَالْبَطْنِ كَيْلَا يَقْصُرَ عَلَيْهَا الْكَفَنُ إِذَا حُمِلَتْ عَلَى السَّرِيرِ. وَعَنْ زُفَرَ رَحِمَهُ اللهُ أَنَّهُ قَالَ: تُرْبَطُ الْخِرْقَةُ عَلَى فَخِذَيْهَا كَيْلَا تَضْطَرِبَ إِذَا حُمِلَتْ عَلَى السَّرِيرِ، وَالْأَوْلَى أَنْ تَكُونَ الْخِرْقَةُ بِحَيْثُ تَصِلُ إِلَى الْمَوْضِعَيْنِ لِيَكُونَ أَسْتَرَ لَهَا.

ترجمہ: ”اور ایک کپڑا (سینہ بند) کفن کے اوپر سینے کے پاس، چھاتیوں کے اوپر اور پیٹ کے اوپر اس لیے باندھا جاتا ہے تاکہ جب اسے جنازے کے تخت پر اٹھایا جائے تو کفن اس پر سے نہ ہٹے۔ اور حضرت امام زفر رحمہ اللہ سے منقول ہے: سینہ بند (سینے سے) رانوں تک باندھا جائے تاکہ جب اسے جنازے کے تخت پر اٹھایا جائے تو اس کا جسم متحرک نہ ہو۔ اور بہتر یہی ہے کہ سینہ بند ایسا ہو جو دونوں جگہوں (پیٹ اور رانوں) تک پہنچ جائے، تاکہ اس کے لیے زیادہ ستر (پردہ) کا باعث بنے۔“ [المحیط البرہانی، کتاب الصلاۃ، الفصل الاربعون فی الجنائز، نوع آخر من ہذا الفصل فی کیفیۃ التکفین، ج: 2، ص: 171، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان]

محیط برہانی ہی میں ہے:

ثُمَّ الْخِرْقَةُ بَعْدَ ذَلِكَ تُرْبَطُ فَوْقَ الْأَكْفَانِ فَوْقَ الثَّدْيَيْنِ؛ لِأَنَّهُ لَوْ لَمْ تُرْبَطِ الْخِرْقَةُ رُبَّمَا يَضْطَرِبُ ثَدْيَاهَا وَقْتَ الْحَمْلِ، فَتَنْتَشِرُ أَكْفَانُهَا فَيَبْدُو شَيْءٌ مِنْ أَعْضَائِهَا.

ترجمہ: ”پھر اس کے بعد سینہ بند کفن کے سب سے اوپر، چھاتیوں کے اوپر باندھا جاتا ہے؛ کیوں کہ اگر سینہ بند نہ باندھا جائے تو ممکن ہے کہ اٹھانے کے وقت اس کی چھاتیاں حرکت کریں، جس سے کفن پھیل جائے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ بے پردہ ہو جائے۔“ [المحیط البرہانی، کتاب الصلاۃ، الفصل الاربعون فی الجنائز، قسم آخر فی کیفیۃ التکفین، ج: 2، ص: 172، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان]

بدائع الصنائع میں ہے:

وَالْخِرْقَةُ تُرْبَطُ فَوْقَ الْأَكْفَانِ عِنْدَ الصَّدْرِ فَوْقَ الثَّدْيَيْنِ وَالْبَطْنِ كَيْ لَا يَنْتَشِرَ الْكَفَنُ بِاضْطِرَابِ ثَدْيَيْهَا عِنْدَ الْحَمْلِ عَلَى السَّرِيرِ.

ترجمہ: ”اور سینہ بند کفن کے اوپر، سینے کے پاس، چھاتیوں اور پیٹ کے اوپر باندھا جاتا ہے، تاکہ جب اسے تخت جنازہ پر اٹھایا جائے تو چھاتیوں کی حرکت سے کفن پھیل نہ جائے۔“ [بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، فصل فی کیفیۃ التکفین، ج: 2، ص: 329، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان]

والله تعالى أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــه:
محمد شہباز انور البرکاتی المصباحی عفی عنہ
14 جمادی الآخرہ 1447ھ
6 دسمبر 2025ء

المصدق:
المفتي وسيم أكرم الرضوي المصباحي

ایک تبصرہ شائع کریں