اور دونوں قدموں کے درمیان ہاتھ کی چار انگلیوں کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح ابو نصر دبوسی سے روایت ہے کہ وہ ایسا ہی کرتے تھے۔ یہی الکبریٰ میں ہے۔
Fatwa No #283-06
سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ نماز میں قیام کی حالت میں دونوں پیروں کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟
المستفتی:
محمد سرفراز قادری، اندور، ایم پی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
نماز کے اندر حالت قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ ہونا چاہیے کہ یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے۔
در مختار و رد المحتار میں ہے:
وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا مِقْدَارُ أَرْبَعِ أَصَابِعِ الْيَدِ لِأَنَّهُ أَقْرَبُ إِلَى الْخُشُوعِ، هَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي نَصْرٍ الدَّبُوسِيِّ إِنَّهُ كَانَ يَفْعَلُهُ كَذَا فِي الْكُبْرَى. [رد المحتار، كتاب الصلاة، مطلب قد يطلق الفرض على ما يقابل الركن وعلى ما ليس بركن ولا شرط، ج: 1، ص: 444، دار الفكر بيروت]
ترجمہ: ”اور دونوں قدموں کے درمیان ہاتھ کی چار انگلیوں کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ خشوع کے زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح ابو نصر دبوسی سے روایت ہے کہ وہ ایسا ہی کرتے تھے۔ یہی الکبریٰ میں ہے۔“
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَ قَدَمَيْهِ أَرْبَعُ أَصَابِعَ فِي قِيَامِهِ. [الفتاویٰ الہندیہ، الفصل الثالث فی سنن الصلاۃ و کیفیتہا، ج: 1، ص: 73، دار الفکر بیروت]
ترجمہ: ”قیام کی حالت میں نمازی کے دونوں پاؤں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ ہونا چاہیے۔“
والله تعالى أعلمکتبـــــــــــــــــــــــــــه:
محمد شہباز انور البرکاتی المصباحی عفی عنہ
26 رمضان المبارک 1446ھ
المصدق:
المفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

