Headlines
Loading...
قبرستان کی گھاس کاٹنا اور اس میں جانور چرانا کیسا ہے؟

قبرستان کی گھاس کاٹنا اور اس میں جانور چرانا کیسا ہے؟

Question S. No. #105

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

علماۓ دین مفتیان عظام کی بارگاہ ایک سوال ہے: کچھ لوگ قبرستان میں جانوروں کو چراتے ہیں، کیا حکم ہوگا ایسی قوم کے بارے میں جو مُردوں کی بے حرمتی کرواتے ہیں؟ جواب عنایت فرمائیں۔

المستفتی: حاجی عبدالغفار میر طالب دعا، جموں کشمیر

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

قبرستان کی ہری گھاس کاٹنے کی اجازت نہیں، اس سے پرہیز چاہیے، مگر جانوروں کو قبرستان میں چرانا حرام حرام سخت حرام ہے۔ قبروں کی بے ادبی ہے۔ مذہب اسلام کی توہین ہے۔ کھلی مذہبی دست اندازی ہے۔ ایسے لوگ سخت گنہگار مستحق عذاب نار و لائق سزائے قہار و جبار ہیں۔ علاقے کے تمام مسلمانوں پر لازم و ضروری ہے کہ اس میں جانور باندھنے والوں و چرانے والوں کو سختی کے ساتھ روکیں۔

پھر بھی اگر وہ اس فعل بد و شنیع سے باز نہ آئیں تو ان کا مکمل طور سے سخت سماجی بائیکاٹ کریں۔

رد المحتار میں ہے:

قطع النبات الرطب والحشيش من المقبرة دون اليابس [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٢٤٥/٢]

يعنى قبرستان سے خشک گھاس کاٹ سکتے ہیں، سبز گھاس کاٹنا مکروہ ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

فلو كان فيها حشيش يحش ويرسل إلى الدواب ولا ترسل الدواب فيها [مجموعة من المؤلفين ,الفتاوى الهندية ,2/471]

يعنی سوکھی گھاس کاٹ کر جانوروں کے لئے بھیج سکتے ہیں، جانوروں کو اس میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

قبرستان میں جو گھاس اگتی ہے جب تک سبز ہے اسے کاٹنے کی اجازت نہیں۔جب سوکھ جائے تو کاٹ کر جانوروں کے لئے بھیج سکتے ہیں مگر جانوروں کا قبرستان میں چرانا کسی طرح جائز نہیں مطلقًا حرام ہے قبروں کی بے ادبی ہے،مذہب اسلام کی توہین ہے،کھلی مذہبی دست اندازی ہے۔ [فتاویٰ رضویہ، کتاب الوقف، ج 6، ص492، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی]

فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے:

قبرستان میں جو گھاس اگتی ہے جب تک سبز ہے اسے کاٹنے کی اجازت نہیں۔ جب سوکھ جائے تو کاٹ کر جانوروں کے لئے بھیج سکتے ہیں مگر جانوروں کا قبرستان میں چرانا کسی طرح جائز نہیں مطلقًا حرام ہے، قبروں کی بے ادبی ہے، مذہب اسلام کی توہین ہے،کھلی مذہبی دست اندازی ہے۔ (فتاویٰ فقیہ ملت، کتاب الوقف، باب فی المقابر، ج: 2 ص186، مطبوعہ شبیر برادرز ، اردو بازار، لاہور)

فقہائے کرام کی ان عبارات سے ثابت ہوا کہ قبرستان کی سبز گھاس کاٹنے کی اجازت نہیں البتہ جب گھاس سوکھ جانے تو اسے کاٹ کر جانوروں کے لئے لے جا سکتے ہیں لیکن اس میں جانوروں کو چرانا اور کھونٹا وغیرہ گاڑ کر اس کے ساتھ بکری، گھوڑا وغیرہما جانوروں کو باندھنا اور اس طرح قبروں کو پا مال کرنا کہ اس میں جانور قبروں پر پیشاب، پاخانہ بھی کرتے ہیں یہ عظیم گناہ ہے، جس سے احتراز ہر مسلمان پر لازم و ضروری ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
كتبه:
نظیر احمد قادری
دار الافتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی یوپی
۱۵ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح:
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی برکاتی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.