Headlines
Loading...
جانور ذبح کرتے وقت گلے کی ابھری ہوئی ہڈی نیچے چلی گئی تو ذبیحے کا کیا حکم ہے ؟

جانور ذبح کرتے وقت گلے کی ابھری ہوئی ہڈی نیچے چلی گئی تو ذبیحے کا کیا حکم ہے ؟

Question S. No. #107

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مرغا زبح کرتے وقت جو رگ نیچے چلی جاتی ہے جس کو عرف میں ”ہڑوول“ کہا جاتا ہے بعض لوگ کہتے یہ حرام حرام ہے، کتا کھا سکتا ہے مگر انسان نہیں، کیا حکم ہے؟

المستفتی: محمد اقبال، تحصیل تھرو، ضلع ریاسی، جموں کشمیر

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

بیان سائل سے معلوم ہوا کہ اس سے مراد گلے کی ابھری ہوئی وہ ہڈی ہے جس کو اردو میں”گھنڈی“ اور عربی میں”عقدہ“ اور کشمیری زبان میں”ہڑوول“ کہتے ہیں۔

اس سلسلے میں علماے کرام کا اختلاف ہے کہ اگر یہ ہڈی ذبح کرنے میں نیچے ہو گئی تو جانور حرام ہوگا یا حلال، تحقیق اور قول فیصل یہی ہے کہ گہنڈی (ہڑوول) کا اوپر نیچے ہونے کا اعتبار نہیں بلکہ اعتبار ان چار رگوں کا ہے جو ذبح میں کاٹی جاتی ہیں۔ یعنی 1 حلقوم، 2 مری، 3، 4 ودجین۔

کم از کم ان میں سے تین رگیں کٹ گئیں تو جانور حلال ہوگا ورنہ حرام۔ اس کا علم کہ کون کون سی رگ ہے اور کتنی کٹیں یا تو پوچھنے سے معلوم ہوگا یا جو اس میں مہارت رکھتے ہوں ان کے بتانے سے حاصل ہوگا۔

رد المحتار میں ہے:

والتحرير للمقام أن يقال: إن كان بالذبح فوق العقدة حصل قطع ثلاثة من العروق. فالحق ما قاله شراح الهداية تبعا للرستغفني، وإلا فالحق خلافه، إذ لم يوجد شرط الحل باتفاق أهل المذهب، ويظهر ذلك بالمشاهدة أو سؤال أهل الخبرة، فاغتنم هذا المقال ودع عنك الجدال [ابن عابدين ,الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,6/295]

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

أن الذبح لو وقع في أعلى من الحلقوم كان المذبوح حلالا وكلامه هكذا هذه الرواية تقتضي أن يحل وإن وقع الذبح فوق الحلق قبل العقدة ولو جعل بين بمعنى في كما في الكرماني لم يستقم كما لا يخفى (وقيل لا يجوز فوق العقدة) وإنما أتى بصيغة التمريض لمخالفة ظاهر الحديث [عبد الرحمن شيخي زاده، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، ٥١٠/٢]

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

اس مقام میں تحقیق یہ ہے کہ ذبح میں گھنڈی کا اعتبار نہیں،چاروں رگوں میں سے تین کٹ جانے پر مدارہے۔اگر ایک یا دو رگ کٹی حلال نہ ہوگا اگرچہ گھنڈی سے نیچے ہو،اور اگر چاروں یا کوئی سی تین کٹ گئیں تو حلال ہے اگر چہ گھنڈی سے اوپر ہو۔ [کتاب الذبائح، ج: 14، ص: 445، امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی شریف]

بہار شریعت میں ہے:

اس صورت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ذبح فوق العقدہ ہو جائے اور اس میں علما کو اختلاف ہے کہ جانور حلال ہوگا یا نہیں ۔ اس باب میں قولِ فیصل یہ ہے کہ ذبح فوق العقدہ میں اگر تین رگیں کٹ جائیں تو جانور حلال ہے ورنہ نہیں۔ علما کا یہ اختلاف اور رگوں کے کٹنے میں احتمال دیکھتے ہوئے احتیاط ضروری ہے کہ یہ معاملہ حلت و حرمت کا ہے اور ایسے مقام پر احتیاط لازم ہوتی ہے۔ [ذبح کا بیان، ج3 ، ح 15، ص313، مکتبہ المدینہ، کراچی] واللہ تعالیٰ اعلم
كتبه:
نظیر احمد قادری
متعلم: دار الافتا مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی یوپی
۲۴ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح:
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی برکاتی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.