Headlines
Loading...
قربانی کا چمڑا بیچ کر مسجد میں لگانا کیسا؟

قربانی کا چمڑا بیچ کر مسجد میں لگانا کیسا؟

Question S. No. #58

سوال: ماقولكم رحمهم الله تعالی (آپ کیا فرماتے ہیں اس مسئلے میں کہ) قربانی كا چمڑا فروخت کر کے مسجد میں خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو اگر کسی نے ایسے عمل کریا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ آیا وہ خرچ کردہ شده روپیہ یا چمڑا اعادہ کرنا چاہئے یا نہیں؟
سائل: عبدالقادر طالب العلم مدرسه اهلسنت بريلى
۱۱ ربیع الآخر

الجواب : چرم قربانی کا صدقہ کرنا واجب نہیں۔ بلکہ اپنے صرف میں بھی لاسکتا ہے مثلاً اس کی جا نماز یا جلد چلنی یا ڈول وغیرہ بنواکر استعمال کر سکتا ہے یا اسے کسی باقی رہنے والی چیز کے ساتھ بھی بدل سکتا ہے۔ درمختار میں ہے:

ویتصدق بجلدها و يعمل منه نحو غربال وجراب وقربة وسفرة ودلوا وببدله بما ينتفع به باقيا كما مر لا بمستهلک کخل ولحم ونحوه کدراهم فإن بيع اللحم أو الجلد به ای بمستهلك او بدراهم تصدق ثمنه. [ابن عابدين ,الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,6/328]

یوہیں اسے نیک کام میں بھی صرف کرتا ہے خواه مسجد کو دے یا کسی اور اچھے کام میں لگائے حدیث میں فرمایا:

کلو وادخروا وائتجروا

ہاں اگر اپنے لئے شئ مستہلک(ہلاك هونے والی چیز) کے بدلے میں بیع کیا (بیچا) ہے تو اب تصدق ثمن(یعنی بیچنے پر جو رقم حاصل ہوئی اسے صدقہ کرنا) واجب اور یہ ثمن مسجد میں نہیں صرف ہوسکتا کہ یہ ملک خبیث ہے اور اس کی سبیل تصدق ہی ہے اور اگر مسجد میں صرف کرنے کے لیے بیچا ہے تو مسجد میں صرف كرے کوئی ممانعت نہیں (منع نہیں) واللہ تعالى اعلم

(ماخوذ فتاویٰ امجدیہ، کتاب الاضحية، ج۳، ص:۳۰۴)

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.