Headlines
Loading...
بوسیدہ اوراق مقدسہ، قرآنی پاروں کا کیا کریں؟

بوسیدہ اوراق مقدسہ، قرآنی پاروں کا کیا کریں؟

Question S. No. #24

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلۂ ذیل میں کہ جو اوراق مقدسہ، قرآنی پارے اور نسخے بوسیدہ ہو جائیں، ہاتھ لگانے سے پھٹنے لگیں تو کیا ان کا کیا کریں، کیا گڑھا کھود کر دفن کر سکتے ہیں؟ اگر دفنا سکتے ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ بینوا توجروا

المستفتی: محمد اکمل رضا، خطیب و امام جامع مسجد دیپال پور، اندور

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

اوراق مقدسہ اور قرآنی نسخے جب اس قدر بوسیدہ ہوجائیں کہ اب اسے پڑھنے میں دشواری ہو یا ہاتھ لگانے پر پھٹنے لگیں تو حکم ہے کہ انھیں کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی ایسی جگہ دفن کریں جہاں نجاست اور کچرا وغیرہ گرنے کا اندیشہ نہ ہو۔

دفن کرنے میں لحد کا انتظام کریں تاکہ ان پر مٹی نہ گرے اور اگر شق بنا کر دفن کریں تو اس پر پترا یا مضبوط چھجہ لگا دیں کہ ان اوراق مقدسہ اور قرآنی نسخے تک مٹی نہ پہنچے۔

علامہ ابن عابدین شامی رد المحتار میں فرماتے ہیں:

وَالدَّفْنُ أَحْسَنُ كَمَا فِي الْأَنْبِيَاءِ وَالْأَوْلِيَاءِ إذَا مَاتُوا، وَكَذَا جَمِيعُ الْكُتُبِ إذَا بَلِيَتْ وَخَرَجَتْ عَنْ الِانْتِفَاعِ بِهَا اهـ [کما في المجتبى ]. [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٤٢٢/٦]

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت قدس سرہ العزیز فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:

ایسے مصاحف کو پاک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کرنا چاہئے۔

فيها [ أي في الفتاوى العالمگيرية] أیضا المصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل فی خرقة طاهرة ويدفن، ودفنه أولى من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أو نحو ذلك ويلحد له لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه في ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحیث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا كذا في الغرائب

اس میں (یعنی فتاویٰ عالمگیری میں) یہ بھی لکھا ہے کہ جب مصحف بوسیدہ ہوجائے اور اسے نہ پڑھا جاسکے اور یہ اندیشہ ہو کہ کہیں گر کر بکھر جائے گا اور بے ادبی ہونے لگے گی تو اسے کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کر کسی محفوظ جگہ دفن کردیا جائے اور اسے دفن کرنا زیادہ بہتر ہے بنسبت کسی ایسی جگہ رکھ دینے کے جہاں اس پر گندگی پڑے اور آلودہ ہوجائے اور لاعلمی میں پاؤں کے نیچے روندا جانے لگے۔ نیز اس کی تدفین کے لئے صندوقچی قبر کی بجائے بغلی(لحدی)قبر بنائی جائے اس لئے کہ اگر صندوق نما قبر بنائی گئی تو دفن کرنے کے لئے اس پرمٹی ڈالنے کی ضرورت پیش آئے گی اور یہ عمل ایک لحاظ سے بے ادبی والا ہے ۔ ہاں اگر مصحف شریف کو قبر میں رکھ کر اوپر چھت بنادی جائے تاکہ اس پر مٹی نہ پڑے اور نہ اس تک مٹی پہنچے تو بھی اچھی تدبیر ہے اسی طرح فتاوی الغرائب میں مذکور ہے۔ (ت) (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ٢٣، صفحہ ٧٠) والله تعالیٰ اعلم
كتبه:
محمد شہباز انور البرکاتی المصباحی
اتردیناج پور، بنگال، ہند
۱۵ شوال المکرم ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح:
مفتی وسیم اکرم الرضوی المصباحی

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.