خوش خبری!

آنکھ اور کڈنی وغیرہ ڈونیٹ کرنا کیسا ہے؟

Fatwa No #284-07

آنکھ اور کڈنی وغیرہ ڈونیٹ کرنا کیسا؟

سوال: کیا کوئی انسان ضرورت کے وقت اپنے بدن کا کوئی حصہ کسی کو دے سکتا ہے؟ جیسے آنکھ، کڈنی وغیرہ ڈونیٹ کرنا کیسا ہے؟
المستفتی: محمد غلام سبحانی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

انسان اپنے بدن کا کوئی بھی حصہ کسی کو ڈونیٹ نہیں کر سکتا۔

کیوں کہ کسی چیز کو ڈونیٹ کرنے کے لیے اس چیز کا مال ہونا اور ڈونیٹ کرنے والے کی ملکیت میں ہونا ضروری ہے، جب کہ انسانی اعضا نہ ہی مال ہیں نہ ہی انسان کی ملکیت میں ہیں، بلکہ یہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہیں۔ لہٰذا انسان اپنے اعضا کسی کو ہبہ (ڈونیٹ) نہیں کر سکتا۔

ہبہ کے لیے شیء موہوب کا مال ہونا ضروری ہے، جیسا کہ ہندیہ میں ہے:

وَمِنْهَا أَنْ يَكُونَ مَالًا مُتَقَوِّمًا فَلَا تَجُوزُ هِبَةُ مَا لَيْسَ بِمَالٍ أَصْلًا.

ترجمہ: اور ہبہ کی شرائط میں سے ہے کہ شیء موہوب مال متقوم ہو تو ایسی چیز کو ہبہ کرنا جائز نہیں جو اصلاً مال نہ ہو۔ [الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الہبۃ، الباب الاول فی تفسیر الہبۃ، ج: 4، ص: 374، دار الفکر]

ہبہ (ڈونیٹ کرنے) کے لیے واہب (ڈونر) کی ملکیت بھی ضروری ہے، جیسا کہ تنویر الابصار میں ہے:

وَشَرَائِطُ صِحَّتِهَا فِي الْوَاهِبِ الْعَقْلُ وَالْبُلُوغُ وَالْمِلْكُ.

ترجمہ: اور ہبہ صحیح ہونے کے لیے واہب (ڈونر) میں شرط یہ ہے کہ وہ عاقل ہو، بالغ ہو اور مالک ہو۔ [تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الہبۃ، ج: 5، ص: 678، دار الفکر بیروت]

انسانی اعضا مال نہیں ہیں، جیسا کہ علامہ اکمل الدین بابرتی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

وَجُزْءُ الْآدَمِيِّ لَيْسَ بِمَالٍ.

ترجمہ: آدمی کا جز مال نہیں ہے۔ [العنایۃ، کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج: 6، ص: 423، دار الفکر]

انسانی اعضا اللہ کی امانت ہیں، چنانچہ علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

أَنَّ جِنَايَةَ الْإِنْسَانِ عَلَى نَفْسِهِ كَجِنَايَتِهِ عَلَى غَيْرِهِ فِي الْإِثْمِ؛ لِأَنَّ نَفْسَهُ لَيْسَتْ مِلْكًا لَهُ مُطْلَقًا، بَلْ هِيَ لِلَّهِ، فَلَا يَتَصَرَّفُ فِيهَا إِلَّا بِمَا أُذِنَ لَهُ فِيهِ.

ترجمہ: ”انسان کا اپنی جان پر جنایت کرنا، گناہ میں دوسرے پر ظلم کرنے ہی کی طرح ہے؛ کیوں کہ انسان کی جان بالکل اس کی ملکیت نہیں ہے، بلکہ اللہ کی ملک ہے، اس لیے وہ اس میں صرف وہی تصرف کر سکتا ہے جس کی اسے اجازت دی گئی ہو۔“ [ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، ج: 6، ص: 244، دار ابن حزم]

فقیہ عصر مفتی نظام الدین رضوی دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں: ”انسان اپنے اعضا آنکھ، گردے، پھیپھڑے وغیرہ کا مالک نہیں، یہ تمام اعضا بندے کے پاس اللہ عزوجل کی امانت ہیں، لہٰذا انسان اپنے یہ اعضا نہ تو دوسرے کے ہاتھ بیچ سکتا ہے نہ کسی کو ہبہ یا خیرات کر سکتا ہے، نہ ہی اپنے کسی عزیز وغیرہ کے لیے بعد وفات یہ اعضا دینے کی وصیت کر سکتا ہے۔ یوں ہی دوسرا شخص کسی انسان سے اعضا نہ خرید سکتا ہے نہ ہی اعضا کا ہبہ، صدقہ یا وصیت قبول کر سکتا ہے، نہ لے سکتا ہے۔“ [مجلس شرعی کے فیصلے، ج: 1، ص: 184، جامعہ اشرفیہ مبارک پور ہند]

والله تعالى أعلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــه:
حسین رضا اشرفی مدنی
25 نومبر 2025ء / 3 جمادی الاخریٰ 1446ھ
المصدق:
المفتي وسيم أكرم الرضوي المصباحي

ایک تبصرہ شائع کریں