Fatwa No. #275
سوال:
میرے والدین باحیات ہیں اور ہم لوگ چار بھائی ہیں۔ ہم چاروں بھائی کام الگ الگ کرتے ہیں اور اپنی کمائی اپنے والدین کے پاس بھیجتے ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس وقت ہم لوگ اچھی حالت میں ہیں اور صاحب نصاب ہو گئے ہیں اور اپنے والدین کو حج کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں مگر کچھ لوگ مجھ کو یہ رائے دیتے ہیں کہ جب آپ نے کمایا ہے اور آپ قریب بھی ہیں یعنی مسقط میں ہیں تو حج آپ پر فرض ہوتا ہے۔ پہلے آپ حج کیجیے۔ مگر ہم چاروں بھائیوں کی متفقہ رائے ہے کہ پہلے اپنے والدین کو حج بیت اللہ کے لیے بھیجا جائے۔ تو والدین کے اولاد پر کیا حقوق ہوتے ہیں اور اولاد کے والدین پر کیا حقوق ہوتے ہیں؟ تحریر فرمائیں۔
المستفتی:
علی رضا، پوسٹ بکس نمبر ۵۶، مطرح، مسقط، عمان
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب:
آپ جب اپنے والدین سے دور دراز رہ کر کماتے ہیں۔ تو جو کچھ کماتے ہیں وہ سب آپ کی ملک ہے۔ ہاں اگر اپنی کمائی اپنے باپ کو دے دیتے ہیں تو جو کچھ باپ کو دے دیں گے وہ باپ کی ملک ہو جائے گا۔ اگر آپ کے پاس آپ کی کمائی سے اتنا ہے کہ آپ حج کر سکیں تو خود آپ پر حج فرض ہو گیا۔ اور ضرور آپ کو جلد از جلد حج کرینا ضروری ہے۔
اسی طرح اگر آپ کے والدین کے پاس، یا ان میں سے کسی ایک کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ ان پر حج فرض ہے تو انھیں بھی لازم ہے کہ جلد از جلد حج کر لیں ۔ اگر آپ پر حج فرض ہے اور ماں باپ کو حج کرادیں گے آپ کا فرض ذمہ سے ساقط نہ ہو گا۔ یوں ہی اگر باپ پر، یا ماں پر ، یا دونوں پر حج فرض ہے وہ نہ کریں اور آپ کر لیں تو وہ بری الذمہ نہ ہوں گے۔
والدین کے حقوق اولاد پر یہ ہیں کہ اولاد ان کو راضی رکھیں، ان کی خدمت کریں، ان کو کسی طرح ایذا نہ پہنچائیں۔ والدین پر اولاد کے حقوق یہ ہیں کہ ان کی پرورش کریں، دین سکھائیں ، دین دار بنائیں، کمانے کا ہنر سکھائیں وغیرہ وغیرہ۔
اگر مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق آپ پر حج فرض ہے تو آپ ضرور حج کریں، والدین پر بھی فرض ہے تو وہ بھی ضرور کریں۔ اور اگر آپ پر فرض ہے والدین پر نہیں اور آپ کو وسعت ہے کہ انھیں بھی حج کرادیں تو آپ بھی حج کر لیں اور انھیں بھی کرادیں یہ آپ کی بہت بڑی سعادت ہوگی۔
والله تعالى أعلم
کتبــــــه:
شارح البخاري المفتي شريف الحق الأمجدي علیه الرحمة والرضوان
[فتاویٰ جامعہ اشرفیہ، ج: 7، ص: 472، 473، مجلس برکات جامعہ اشرفیہ، مبارک پور]