Headlines
Loading...
کیا اذان کے بعد صلاۃ پکارنا نیا مسئلہ ہے؟

کیا اذان کے بعد صلاۃ پکارنا نیا مسئلہ ہے؟

Fatwa No. #217

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بہت سی مسجدوں میں آج کل مؤذن نماز کی اذان کے بعد صلاۃ وسلام پڑھتے ہیں، یعنی اذان کے بعد نمازی سلام پڑھنے کا انتظار کرتے ہیں، پھر نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوتی ہے۔ شرعی اعتبار سے اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کا مسئلہ کیا ہے؟
المستفتی: محمد القادری، کان پور

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ متعدد کتب فقہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

ويثوب" بعد الأذان في جميع الأوقات لظهور التواني في الأمور الدينية في الأصح وتثويب كل بلد بحسب ما تعارفه أهلها "كقوله" أي المؤذن "بعد الأذان: الصلاة الصلاة يا مصلين" قوموا إلى الصلاة [الشرنبلالي، مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، ص: 79، المكتبة العصرية]

ہر نماز کے وقت اذان کے بعد تثويب کہنا صحیح ہے کیوں کہ اب امور شرعیہ میں سستی آگئی ہے۔ اور اس کے لیے کوئی خاص لفظ معین نہیں ہے۔ جہاں کے لوگوں میں جو لفظ رواج پایا جائے وہی درست ہے۔

در مختار اور اس کے حاشیہ شامی میں ہے:

ويثوب بین الاذان والاقامة في الكل للكل بما تعارفوه والتسليم بعد الاذان حدث في ربيع الآخر سنة ٧٨١ھ وهو بدعة حسنة [ملخصا، ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٣٨٩/١]

ترجمہ: اذان واقامت کے درمیان ہر نماز کے لیے تثویب جائز ہے اور خاص لفظ السلام کے ساتھ ۷۸۱ ھ میں جاری ہوئی اور یہ ایک بدعت حسنہ ہے۔

قاضی خاں صفحہ 139 اور بحر الرائق جلد اول میں بھی ایسا ہی ہے۔ الحاصل اعلان بعد الاعلام تثویب ہے اور اس کے لیے کوئی خاص لفظ متعين نہیں ہے۔ تو جو لوگ الصلاة والسلام علیك یا رسول الله کہہ کر تثویب کرتے ہیں وہ بھی شرعاً جائز ومستحسن ہے۔
کتبہ:
(بحر العلوم) مفتی عبد المنان صاحب علیہ الرحمہ

[فتاویٰ بحر العلوم، ج: 1، ص: 119]

واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.