حتیٰ کہ خود مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بھی صدیق اکبر کی افضلیت کے قائل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مسئلہ محض باب فضائل کا نہیں بلکہ یہ تو مذہب حق اہل سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہے لہذا جو اس کے خلاف جاتے ہوئے سیدنا صدیق اکبر
Fatwa No #278-02
سوال:
میرا آپ سے سوال ہے یہ کہ مسجد کا امام اگر مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر افضلیت جانے کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہوگا؟
المستفتی:
وقاص عباسی
بسم الله الرحمٰن الرحیم
الجواب:
خلیفہ اول، عاشق اکبر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسل، ملائکہ اور انسانوں میں سے انبیا و مرسلین کے بعد جن و انس اور ملائکہ وغیرہ سب سے افضل ہیں، اس میں اہل حق کے کسی فرد کا اختلاف نہیں حتیٰ کہ خود مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم بھی صدیق اکبر کی افضلیت کے قائل ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مسئلہ محض باب فضائل کا نہیں بلکہ یہ تو مذہب حق اہل سنت و جماعت کا اجماعی عقیدہ ہے لہذا جو اس کے خلاف جاتے ہوئے سیدنا صدیق اکبر پر کسی بھی صحابی یا ولی کو فضیلت دے وہ گمراہ ہے اور گمراہ کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز و گناہ، اگر پڑھ لی تو دہرانا واجب ہے۔
بخاری شریف کی حدیث پاک میں ہے:
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: ”كنا نخير بين الناس في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فنخير أَبا بكرٍ، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان رضي الله عنهم“۔ [صحيح البخاري، كتاب أصحاب النبي، باب فضل أَبي بكرٍ بعد النبي صلى الله عليه وسلم، ج: 5، ص: 4، الحدیث: 3655، دار طوق النجاة]
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کے درمیان فضیلت کے اعتبار سے انتخاب کیا کرتے تھے، تو سب سے پہلے ابوبکر کو سب سے افضل مانتے، پھر عمر بن خطاب کو، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کو سب سے افضل مانتے تھے۔“
ایک اور حدیث پاک میں ہے:
عن جده أَسعد بن زرارة قال: رأَيت رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس فالتفت التفاتةً، فلم ير أَبا بكرٍ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”أَبو بكرٍ، أَبو بكرٍ، إِن روح القدس جبريل عليه السلام أَخبرني آنفًا: إِن خير أُمتك بعدك أَبو بكرٍ الصديق“۔ [المعجم الاوسط للطبراني، باب الميم من اسمه محمد، ج: 6، ص: 292، الحدیث: 6448، دار الحرمين، القاهره]
ترجمہ: اسعد بن زرارہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ایک نظر ادھر ادھر ڈالی، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نہ پایا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! ابوبکر! بے شک روح القدس جبرئیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے خبر دی ہے کہ آپ کی امت میں آپ کے بعد سب سے بہتر ابوبکر صدیق ہیں۔“
مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے نزدیک بھی سیدنا صدیق اکبر ہی سب سے افضل ہیں چنانچہ بخاری شریف میں ہے:
عن محمد ابن الحنفية، قال: قلت لأَبي أَي الناس خيرٌ بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: ”أَبو بكرٍ“، قلت: ثم من؟ قال: ”ثم عمر“، وخشيت أَن يقول عثمان، قلت: ثم أَنت؟ قال: ”ما أَنا إِلا رجلٌ من المسلمين“۔ [صحيح البخاري، كتاب أصحاب النبي، باب قول النبي لوكنت متخذًا خليلًا، ج: 5، ص: 7، الحدیث: 3671، دار طوق النجاة]
یعنی جگر گوشہ علی المرتضیٰ حضرت سیدنا محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ ارشاد فرمایا: ”ابوبکر“، میں نے پوچھا: پھر کون؟ ارشاد فرمایا: ”عمر“۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ پھر کون؟ تو شاید آپ حضرت عثمان کا نام لے لیں گے، اس لیے میں نے فوراً کہا: حضرت عمر کے بعد تو آپ ہی سب سے افضل ہیں؟ تو آپ نے عاجزی کے طور پر ارشاد فرمایا: ”میں تو ایک عام سا مسلمان آدمی ہوں۔“
بلکہ اس معاملے میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا معاملہ بہت سخت تھا آپ خود فرماتے ہیں:
لا أَجد أَحدًا يفضلني على أَبي بكرٍ و عمر إِلا جلدته حد المفتري
ترجمہ: جسے میں پاؤں گا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مجھے افضل بتاتا ہے اسے مفتری (افترا و بہتان لگانے والے) کی حد ماروں گا (جو کہ اسی [80] کوڑے ہیں)۔ [الصواعق المحرقہ، بحوالہ الدارقطنی، الباب الثالث، ص: 91، دار الکتب العلمیہ بیروت]
فضائل الصحابہ میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ روایت نقل فرماتے ہیں:
عن الحكم بن جحلٍ قال: سمعت عليًّا يقول: لا يفضلني أَحدٌ على أَبي بكرٍ وعمر إِلا جلدته حد المفتري.
ترجمہ: حکم بن جحل کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی مجھے حضرت ابوبکر یا حضرت عمر سے افضل بتائے تو میں اسے افترا کرنے والے کی سزا دوں گا (یعنی اسی کوڑے ماروں گا)۔“ [فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل، ج: 1، ص: 83، مؤسسة الرسالة بيروت]
فقہ اکبر میں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أَفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أَبو بكرٍ الصديق رضي الله عنه ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علي بن أَبي طالبٍ رضوان الله تعالى عليهم أَجمعين. [الفقه الاكبر مع شرحه منح الروض الأزهر، ص: 107-110، مكتبة المدينة، دعوت اسلامي]
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد سب سے افضل انسان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر بن خطاب، پھر حضرت عثمان بن عفان، پھر حضرت علی بن ابی طالب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
منح الروض الازہر شرح الفقه الاکبر میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
الحاصل أَن أَفضل الناس بعد الأَنبياء عليهم الصلاة والسلام أَبو بكرٍ الصديق رضي الله عنه... فهو أَفضل الأَولياء من الأَولين والآخرين وحكي الإِجماع على ذلك ولا عبرة بمخالفة الروافض هنالك وقد استخلفه عليه الصلاة والسلام في الصلاة فكان هو الخليفة حقًّا وصدقًا، وفي الصحيحين عن عائِشة رضي الله عنها أَنها قالت دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم في اليوم الذي بدئَ فيه فقال ادعي إِلي أَباك وأَخاك حتى أَكتب لأَبي بكرٍ كتابًا ثم قال يأْبى الله والمسلمون إِلا أَبا بكرٍ. [منح الروض الأزهر شرح الفقه الاكبر للملا علي القاري، ص: 108، مكتبة المدينة، دعوت اسلامي]
ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے افضل انسان حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں... وہی اولین و آخرین تمام اولیا میں سب سے افضل ہیں اور اس پر اجماع بھی نقل کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں روافض کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں نماز میں اپنا خلیفہ بنایا، پس وہی حقیقی اور سچے خلیفہ و جانشین بھی تھے۔ اور صحیحین (بخاری شریف و مسلم شریف) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس دن میرے پاس تشریف لائے جس دن آپ کو علالت شروع ہوئی، تو آپ نے فرمایا: ”اپنے والد اور اپنے بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ابوبکر کے لیے وثیقہ خلافت تحریر کر دوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: (رہنے دو) ”اللہ اور مسلمان ابوبکر کے سوا کسی اور کو (خلافت کے لیے) قبول نہ کریں گے۔“
امام قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
الأَفضل بعد الأَنبياء عليهم الصلاة والسلام أَبو بكرٍ رضي الله تعالى عنه وقد أَطبق السلف على أَنه أَفضل الأُمة. حكى الشافعي وغيره إِجماع الصحابة والتابعين على ذلك۔ [ارشاد الساری، كتاب فضائل أصحاب النبي، باب فضل أَبي بكرٍ بعد النبي صلى الله عليه وسلم، ج: 6، ص: 85، المطبعة الكبرى الأميرية، مصر]
ترجمہ: انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد افضل البشر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بے شک سلف صالحین نے ان کے افضل امت ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ اور امام شافعی علیہ الرحمہ وغیرہ نے اس امر پر صحابہ و تابعین کا اجماع نقل کیا ہے۔
مواہب اللدنیہ میں ہے:
إِن أَفضلهم على الإِطلاق عند أَهل السنة إِجماعًا أَبو بكرٍ ثم عمر رضي الله عنهما۔ [المواہب اللدنیۃ، ج: 2، ص: 701، الفصل الثالث، الطبقة الثانية عشر: صبيان أدركوا النبى صلى الله عليه وسلم ورأوه عام الفتح وبعده، المكتبة التوفيقية، القاهره مصر]
ترجمہ: اہل سنت کے نزدیک مطلقا بالاجماع صحابہ کرام میں سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہما۔
جلیل القدر حنفی محدث حضرت امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات: 321ھ) فرماتے ہیں:
ونثبت الخلافة بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أَولًا لأَبي بكرٍ الصديق رضي الله عنه تفضيلًا له وتقديمًا على جميع الأُمة ثم لعمر بن الخطاب رضي الله عنه ثم لعثمان رضي الله عنه ثم لعلي بن أَبي طالبٍ رضي الله عنه وهم الخلفاء الراشدون والأَئِمة المهديون [متن العقیدۃ الطحاویۃ، ص: 81، المكتب الاسلامي بيروت]
یعنی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت مانتے ہیں اس وجہ سے کہ آپ کو تمام امت پر افضلیت و سبقت حاصل ہے، پھر ان کے بعد حضرت عمر فاروق، پھر حضرت عثمان بن عفان، پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے خلافت ثابت مانتے ہیں۔ یہی حضرات خلفائے راشدین ہیں اور ہدایت یافتہ امام ہیں۔
الصواعق المحرقہ میں ہے:
أَن مالكًا رحمه الله سئِل أَي الناس أَفضل بعد نبيهم؟ فقال: أَبو بكرٍ، ثم عمر. ثم قال: أَو في ذلك شكٌّ؟ [الصواعق المحرقۃ، الفصل الأول في ذكر أفضليتهم على هذا الترتيب... ج: 1، ص: 169، مؤسسة الرسالة لبنان]
ترجمہ: امام مالک علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے بعد سب سے افضل کون ہیں، تو آپ نے جواب دیا کہ ابوبکر صدیق اور ان کے بعد عمر فاروق۔ پھر ارشاد فرمایا: ”کیا اس بارے میں کوئی شک ہے؟“
شرح عقائد نسفی میں ہے:
أَفضل البشر بعد نبينا، أَبو بكرٍ الصديق، ثم عمر الفاروق۔ [شرح العقائد للنسفی، ص: 321، 322، مبحث أفضل البشر بعد نبینا ابو بکر، مکتبۃ المدینۃ، دعوت اسلامی]
ترجمہ: ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم (اور دوسرے انبیا و رسل علیہم السلام) کے بعد افضل البشر حضرت ابوبکر صدیق، پھر عمر فاروق ہیں۔
حضرت شیخ محقق علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: ”جمہور ائمہ دریں باب اجماع نقل کنند“ [تکمیل الایمان، باب فضل الصحابہ، ص: 104]
ترجمہ: جمہور ائمہ اس باب (افضلیت صدیق) میں اجماع نقل کرتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان قادری ماتریدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: اہل سنت و جماعت نصرہم اللہ تعالیٰ کا اجماع ہے کہ مرسلین، ملائکہ و رسل اور انبیائے بشر صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علیہم کے بعد حضرات خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم تمام مخلوق الٰہی سے افضل ہیں، تمام امم اولین و آخرین میں کوئی شخص ان کی بزرگی و عظمت و عزت و وجاہت و قبول و کرامت و قرب و ولایت کو نہیں پہنچتا۔
و ان الفضل بید اللّٰه یؤْتیه من یشآءؕ-و اللّٰه ذو الفضل العظیم [الحدید: 29]
فضل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے عطا فرمائے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ پھر ان میں باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر، پھر فاروق اعظم، پھر عثمان غنی، پھر مولیٰ علی صلی اللہ تعالیٰ علی سیدہم و مولاہم و آلہ و علیہم و بارک و سلم۔ [رسالہ غایۃ التحقیق فی إمامة العلي و الصديق مشمولہ فتاوی رضویۃ، ج: 28، ص: 478، مرکز اہل سنت پوربندر گجرات]
حضرت صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: بعد انبیا و مرسلین، تمام مخلوقات الٰہی انس و جن و ملک سے افضل صدیق اکبر ہیں، پھر عمر فاروق اعظم، پھر عثمان غنی، پھر مولیٰ علی رضی الله تعالیٰ عنہم۔ [بہار شریعت، ج: 1، ص: 241، امامت کا بیان، مکتبۃ المدینہ]
مسئلہ افضلیت باب عقائد سے ہے چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: بالجملہ مسئلہ افضلیت ہرگز باب فضائل سے نہیں جس میں ضعاف (ضعیف حدیثیں) سن سکیں بلکہ مواقف و شرح مواقف میں تو تصریح کی کہ باب عقائد سے ہے اور اس میں آحاد صحاح (صحیح لیکن خبر واحد روایتیں) بھی نا مسموع۔
حيث قالا ليست هذه المسأَلة يتعلق بها عملٌ فيكتفى فيها بالظن الذي هو كافٍ في الأَحكام العملية بل هي مسأَلةٌ علميةٌ يطلب فيها اليقين [شرح مواقف، المرصد الرابع، از موقف سادس فی السمعیات، مطبوعہ منشورات الشریف الرضی قم ایران، ج: 8، ص: 372]
ان دونوں نے کہا کہ یہ مسئلہ عمل سے متعلق نہیں کہ اس میں دلیل ظنی کافی ہوجائے جو عملی احکام میں کافی ہوتی ہے بلکہ یہ معاملہ تو عقائد میں سے ہے اس کے لیے دلیل قطعی کا ہونا ضروری ہے۔ [رسالہ منیر العین مشمولہ فتاویٰ رضویہ، ج: 5، ص: 581، مرکز اہل سنت برکات رضا پوربندر گجرات]
مولا علی کو صدیق اکبر سے افضل بتانے والا گمراہ ہے چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے:
إِن فضل عليًّا على الثلاثة فمبتدعٌ۔ [تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، كتاب الصلاة، بيان الاحق بالإمامة، ج: 1، ص: 135، المطبعة الكبرى الأميرية بولاق القاهره]
یعنی اگر کوئی حضرت علی کو خلفائے ثلاثہ یعنی ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم سے افضل بتائے تو ایسا شخص گمراہ ہے۔
فتح القدیر میں محقق علی الاطلاق علامہ کمال ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وفي الروافض أَن من فضل عليًّا على الثلاثة فمبتدعٌ وإِن أَنكر خلافة الصديق أَو عمر فهو كافرٌ [فتح القدیر، كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص: 350، دار الفكر بيروت]
یعنی روافض کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جو حضرت علی کو خلفائے ثلاثہ سے افضل بتائے وہ گمراہ ہے اور اگر صدیق اکبر یا عمر فاروق کی خلافت کا انکار کرے تو کافر ہے۔
اور گمراہ کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے چنانچہ محقق علی الاطلاق علامہ کمال ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں:
روى محمدٌ عن أَبي حنيفة وأَبي يوسف رحمهما الله تعالى أَن الصلاة خلف أَهل الأَهواء لا تجوز. [فتح القدیر، كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 1، ص: 350، دار الفكر بيروت]
امام محمد نے امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہما اللہ تعالیٰ سے نقل کیا ہے کہ گمراہوں کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ گمراہ بدعقیدہ شخص کے بارے فرماتے ہیں: فاسق العقیدہ کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے... پس اگر حال یوں ہے تو صورت متفسرہ میں مسلمانوں پر واجب قطعی کہ اس شخص کو امامت سے معزول کریں اور اس کے پیچھے ہرگز پرگز اپنی نمازیں برباد نہ کریں۔ [فتاوی رضویہ، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج: 6، ص: 406، مرکز اہل سنت برکات رضا پوربندر گجرات]
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو صدیق اکبر سے افضل جانے آیا اس کے پیچھے نماز مکروہ ہوتی ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت فرماتے ہیں: ”الجواب تمام اہل سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے افضل ہیں، ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولیٰ علی کو ان پر فضیلت دے مبتدع بد مذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔ فتاویٰ خلاصہ و فتح القدیر و بحر الرائق و فتاویٰ عالمگیریہ وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے: إِن فضل عليًّا عليهما فمبتدعٌ“ [خلاصۃ الفتاوی، کتاب الصلوۃ، الاقتداء باہل الہواء، مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ، ج: 1، ص: 149] (اگر کوئی حضرت علی کو صدیق و فاروق پر فضیلت دیتا ہے تو وہ بدعتی اور گمراہ ہے۔)
غنیہ و رد المحتار میں ہے: ”الصلاة خلف المبتدع تكره بكل حالٍ“ [رد المحتار، باب الامامۃ، مطبوعہ مصطفی البابی مصر، ج: 1، ص: 414] (بد مذہب کے پیچھے نماز ہر حال میں مکروہ ہے) ارکان اربعہ میں ہے: ”الصلاة خلفهم تكره كراهةً شديدةً“ تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ [فتاوی رضویہ، کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج: 6، ص: 622، مرکز اہل سنت برکات رضا پوربندر گجرات]
والله تعالى أعلمکتبـــــــــــــــــــــــــــه:
محمد شہباز انور البرکاتی المصباحی عفی عنہ
8 جمادی الآخرہ 1447ھ
30 نومبر 2025ء
المصدق:
المفتي محمد وسیم أکرم الرضوي المصباحي
