Headlines
Loading...

Question S. No. #110

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک اشتہار دہلی سے آیا ہے اس میں تحریر ہے کہ سورۂ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ کھانے کی چیز پر دم کر لے ہیضہ س محفوظ رہے گا۔

زید کہتا ہے کہ کیمیا بناتے ہیں لیکن کسر رہ جاتی ہے۔ جیسے حضرت بابا فرید شکر گنج رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے سورہ اخلاص پڑھ کر مٹی پر دم کیا سونا ہو گیا، زید کو دے دیا۔ پھر زید نے وہی سورہ اخلاص مٹی پر پڑھ کر دم کیا وہ مٹی رہی۔ اسی طرح اس سورت کے پڑھنے سے کوئی اثر نہیں رہ سکتا۔ اس کے بیان سے بھی منشا پایا جاتا ہے اس مثال کے بیان کرنے سے اور لوگوں کو اس عمل سے روک دیا۔ زید پر کیا شرعی جرم عائد ہوسکتا ہے۔ بینوا توجروا

نقل اشتہار

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اللہ تعالی کی کتاب میں امراض ظاہر و باطنہ دونوں کا علاج رکھا ہے۔ (غنية المستملي شرح منية المصلي :497)

دیکھا جاتا ہے کہ آج کل ہیضہ کی ہوا بکثرت چل رہی ہے۔ اسی واسطے الـدال عـلـى الـخـيـر كفاعله کو ذہن میں رکھتے ہوے عرض کرتا ہوں کہ جب تک اس مرض کا چرچا ہواس وقت تک کے لیے پابندی کے ساتھ تین مرتبہ سورۂ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ سے آخر تک پڑھ کر ہر کھانے پینے کی چیز پر دم کر لیں۔خدا نخواستہ یہ صورت پیش آے اس وقت تین مرتبہ سورہ پڑھ کر دم کر کے پلا دیں ان شاء اللہ شفا ہوگی۔

نوٹ: استغفار کلمہ سوئم کی کثرت کی جائے گناہوں سے پرہیز کرو۔ نماز کی تبلیغ کرو زیادتی کے ساتھ۔
سائل: مولوی غلام محمد یسین صاحب از محله میر جعفر خان

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب: اس شخص نے جو کہا برا کہا۔ اور بہت بے ہودہ حرکت کی کہ نیک عمل سے روک دیا۔ بے شک قرآن عظیم ظاہر و باطن ہرمرض کی دوا ہے شفا ہے۔

قال الله تعالی:

وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ [أسرى: ٨٢]

وقال الله تعالى:

قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌؕ [فصلت: ٤٤]

اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔اور اللہ نے ارشاد فرمایا تم فرماؤ وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔

مومنوں کے لیے شفا ہے اور ظالموں کے لیے خود فرماتا ہے:

وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا [أسرى: ٨٢]

اور اس سے ظالموں کو نقصان ہی بڑھتا ہے۔

قرآن عظیم سے طلب شفا عہد کریم حضور علیہ الصلاۃ والتسلیم سے آج تک تمام مسلمانوں میں جاری و ساری ہے، اس کا تو کوئی مسلمان کیوں انکار کر سکتا ہے۔ کسی مسلمان سے یہ مظنون کیسا، موہوم بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ اس کا مطلقا منکر ہو۔ اس شخص نے جو الفاظ کہے بہت برے بکے جن سے توبہ و رجوع کرے۔ مگر اس کا مطلب انکار نہ ہوگا، بلکہ یہ کہ قرآن عظیم شفا ہے مگر ہمارا طریق استعمال ویسا نہیں جس سے خاطر خواہ فائدہ ہو۔ جیسا قرآن عظیم کی تلاوت یا کتابت سے بطریق حسن ہوسکتا ہے۔

لہذا بزرگان دین کی زبان کہاں اور ہماری زبان کہاں؟ ہماری زبان ہر وقت ملوث بعصیان رہتی ہے۔ سورۂ اخلاص سے مٹی سونا ہوگئی مگر ہماری زبان سے تلاوت ہونے پر بھی سونا نہیں ہوتی، تو تاثیر قرآن کا وہ مطلقاً منکر نہیں معلوم ہوتا۔ عصیان آلود زبان سے پڑھا جائے اس کی تاثیر کا منکر معلوم ہوتا ہے۔ اور یہ اس کی نافہمی ہے۔

بلاشبہ دوا میں اللہ عزوجل نے شفا رکھی ہے دوا کا اثر باذنہ تعالی ضرور ہوتا ہے۔ طبیب حاذق ہونا ضرور نہیں کہ طبیب حاذق استعمال کرے تو فائدہ ہو غیر طبیب حاذق استعمال کرے تو فائدہ نہ ہو۔ اس شخص کے طور پر تو بوعلی سینا، افلاطون، بقراط سقراط، ارسطو، جالینوس ہی نسخہ لکھیں تو فائدہ ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ اس کی جہالت کی بات ہے۔ اگر لوگوں کو ایسا کہکے روکے تو لوگ اس کو پاگل سمجھیں گے اور کبھی دوا سے نہ رکیں گے۔

مگر آہ! از ضعف اسلام آہ! آہ! افسوس! ان بے خبروں پر جو اس بدنقل، بدمنش، بے خرد کی اس بے ہودہ مخالفت پر قرآن عظیم سے شفا حاصل کرنے سے رکیں ایسے لوگ سخت بدنصیب ہیں۔ والعياذ بالله تعالى۔ والله تعالى اعلم۔
کتبہ:
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ

(ماخوذ از فتاوی مفتی اعظم، ج: 2، ص: 18، 19، 20 کتاب العقائد و الکلام، امام احمد رضا اکیڈمی)

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.