Headlines
Loading...
کیا وقف کی ہوئی عید گاہ کو مدرسے میں تبدیل کرسکتے ہیں؟

کیا وقف کی ہوئی عید گاہ کو مدرسے میں تبدیل کرسکتے ہیں؟

Question S. No. #85

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں: کیا موقوفہ (وقف کی ہوئی) عیدگاہ کو مکتب (مدرسے) میں تبدیل کرکے عیدگاہ کی زمین دوسری جگہ خریدی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اور ایسے تبدیل کرنے کی دو وجہیں ہیں:
(۱) موقوفہ عیدگاہ درمیان بستی میں واقع ہوگئی جبکہ پہلے وہ بستی کے ایک سائڈ میں تھی۔
(۲) کثرت آبادی کی وجہ سے موقوفہ عید گاہ تنگ ہوگئی ہے؟

المستفتی:

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب بعون الملک الوہاب:

اگر موقوفہ (وقف کی ہوئی) عیدگاہ شہر میں ہو تو اسے مکتب میں تبدیل نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ وقف صحیح ہے اور وقف صحیح کو تبدیل کرنا جائز نہیں۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

لا يجوز تغيير الوقف عن هيئته. (كتاب الوقف، الباب الرابع عشر، ج:٢ ص:١٤٤ ، دار الكتب العلمية)

الاشباه والنظائر میں ہے:

شرط الواقف كنص الشارع اي في وجوب العمل به. ( الأشباه والنظائر، الفن الثاني، كتاب الوقف، ص١٦٣ دار الكتب العلمية)

اگر موقوفہ عیدگاہ گاؤں، دیہات میں ہو تو یہ وقف صحیح نہیں ہے (کیونکہ وقف کے لئے قربت شرط ہے اور وہ یہاں مفقود ہے کہ گاؤں میں عیدین جائز نہیں) لہذا یہ جگہ واقف، اس کے وارثین یا چندہ دہندگان کی ملکیت ہے اب اگر وہ مکتب بنانے کے لیے وقف کردیں تو اس جگہ مکتب بنانا جائز ہے۔

در مختار میں ہے:

صلاة العيد في القرى تكره تحريما: اى لانه اشتغال بما لا يصح. (الدر المختار، كتاب الصلاة، باب العيدين، ج٣ ص٤٦، دار المعرفة)

اسی میں ہے:

"شرطه أن يكون قربة في ذاته." (الدر المختار، كتاب الوقف، مطلب لو وقف على الاغنياء، ج٦ ص٥٢٢، دار المعرفة)

اب رہی بات دوسری جگہ عید گاہ بنانے کی، تو شہر میں اس عید گاہ کو باقی رکھتے ہوئے دوسری عید گاہ وقف کرنا اور بنانا درست ہے لیکن گاؤں میں نہیں۔

فتاوی رضویہ میں ہے:

ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے مذہب میں گاؤں میں عیدین جائز نہیں تو وہاں عید گاہ وقف نہیں ہوسکتی، کہ محض بےحاجت وبے قربت، بلکہ مخالف قربت ہے تو وہ زمین و عمارت ملک بانیان ہیں انہیں اختیار ہے اس میں جو چاہیں کریں، خواہ اپنا مکان بنائیں یا زراعت کریں یا قبرستان کرائیں اور اب وہاں دوسری عید گاہ بنائیں گے اس کی بھی یہی حالت ہوگی۔ (ج٦ ص٤١٦ ط: نوری دارالاشاعت بریلی شریف) واللہ اعلم۔
كتبه:
محمد مظہر مصباحی
متعلم: مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی یوپی
۲۳ جمادی الاولیٰ ۱۴۴۲ھ
الجواب صحیح:
شہزادۂ فقیہ ملت مفتی ازہار احمد امجدی برکاتی صاحب قبلہ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.