Headlines
Loading...
گھر کی ذمہ داری بیٹے پر ہو تو قربانی کس پر واجب ہے؟

گھر کی ذمہ داری بیٹے پر ہو تو قربانی کس پر واجب ہے؟

Question S. No. #79

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسلے میں کہ زید کے والدین زندہ ہیں مگر گھر کی ساری ذمہ داری زید کے ہاتھ میں ہے اور زید قربانی کرنا چاہتا ہے تو کس کے نام سے کروائے، آیا اپنے نام سے یا والد کے نام سے؟ تحریر فرمائیں کرم ہوگا۔ فقط والسلام
المستفتی: محمد عثمان غنی، بڑھل گنج، گورکھپور

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب: قربانی جو بھی کرے ہو جائے گی ، مالدار ہے تو واجب ہوگی اور نصاب سے کم کا مالک ہے تو نفل ادا ہوگی۔

عالمگیری میں ہے:

التطوع فأضحية المسافر والفقير الذي لايوجد منه النذر بالتضحية (ج5 ٬ص443)

یعنی نفل قربانی مسافر اور اس فقیر کی ہوتی ہے جس نے قربانی کی نذر نہ مانی ہو۔

صورت مسئولہ میں گھر کی ذمہ داری لڑکے پر ہونے کا مطلب اگر یہ ہے کہ سارا کاروبار وہی کرتا ہے مگر مالک در اصل باپ ہی ہے اس کو صرف لین دین، بیچ کھوچ کا اختیار ہوتا ہے تو قربانی لڑکے پر واجب نہ ہوگی، والد پر ہی واجب ہوگی۔ اور لڑکے کو زمہ دار بنا دینے کا یہ مطلب ہے کہ باپ نے اسی کو سب کچھ ہبہ کردیا (یعنی سب کا مالک بنایا) اور اس پر قبضہ دے دیا ہو، باپ کے مرنے کے بعد دوسرے بھائیوں کو کوئی حق نہ ملے گا، یہ مالک ہو گیا اور قربانی اس پر واجب ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم
کتبہ: عبدالمنان اعظمی خادم دارالافتاء دارالعلوم اشرفیہ، مبارکپور اعظم گڑھ

(ماخوذ از فتاویٰ بحر العلوم، كتاب الاضحية، ج:5، ص: 202)

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.