Headlines
Loading...
مقدس مقامات کی تصویر والے مصلے پر نماز پڑھنا یا بیٹھنا کیسا؟

مقدس مقامات کی تصویر والے مصلے پر نماز پڑھنا یا بیٹھنا کیسا؟

Fatwa No. #220

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اس دور کے مروجہ مصلے جو تمام ممالک اسلامیہ اور ہمارے ملک کی سبھی مساجد میں موجود ہیں جن پر ان مقدس مقامات کی تشبیہ بنی رہتی ہے۔ مثلاً خانہ کعبہ، بیت المقدس، سبز گنبد وغیرہا۔ اور ان جمیع مصلوں پر نمازیں پڑھی جاتی ہیں۔

  • بعض مصلوں پر وہ شبیہیں حالت سجدہ میں سجدہ کرنے کی جگہ اور بعض حالت سجدہ میں گھٹنوں کی جگہ اور بعض حالت سجدہ میں قدم تک واقع ہو جائیں یا ہو جاتی ہیں تو ان مذکورہ مصلوں پر امام و منفرد کا نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
  • ایک ایسا مصلی جس پر ایک بالشت حاشیہ کے اندر شبیہ بیت المقدس بنی ہوئی ہے اس پر امام و منفرد کا نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
  • یا ایسا مصلی جس پر ان مذکورہ مقامات مقدسہ کی شبیہ پورے مصلے پر بنی ہوئی ہو کہ بحالت قیام نماز قدم مصلی اسی پر واقع ہو ایسے مصلے پر امام یا منفرد کا نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
  • اگر اسی طرح کے مصلوں پر خطیب روز جمعہ مصلے کے کنارے کھڑا ہو کر نماز روزہ کے متعلق وعظ نصیحت کرے تو خطیب کا مصلے کے کنارے کھڑا ہونا جائز ہے یا نہیں؟
  • جب کعبہ کے اندورنی حصہ میں اور بضرورت اس کی چھت پر نماز پڑھنا جائز ہے تو شبیہ پر نماز پڑھنے میں کوئی خرابی لازم آتی ہے یا نہیں اور اس خرابی سے نماز کی صحت پر کیا اثر پڑے گا نماز ہوگی یا نہیں؟
  • عین کا احترام مقدم ہے یا شبیہ کا؟

مندرجہ بالا مسائل کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرما ئیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔
المستفتی: مولانا غلام یاسین القادری، مقام و پوسٹ مبارکپور، ٹانڈہ، ضلع فیض آباد، یوپی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

کسی معظم دینی کی تعظیم اور توہین کا مدار اصل یا نقل پر نہیں ہے، عرف و تعامل پر ہے۔ یعنی عرف میں جو کام توہین کا سمجھا جاتا ہو وہ معاملہ توہین قرار دیا جائے گا۔ اور جس کو لوگ توہین نہیں سمجھتے وہ توہین نہیں، اصل میں ہو یا نقل میں ہو۔ اسی طرح جو چیز اصل کے لیے باعث اہانت ہو ضروری نہیں کر نقل کے لیے بھی ایسا ہی ہو و بالعکس۔ ہماری اس تقریر سے یہ بات خود واضح ہوگئی کہ بہ ضرورت کوئی فعل کیا گیا ہو وہ عرف میں اہانت نہیں شمار ہوتا ہے۔

پس ان دونوں باتوں کو مصلے میں بنے ہوئے نقشے پر پاؤں رکھنے یا بیٹھنے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کو یوں سمجھنا چاہیے کہ انہیں مقامات مقدسہ کے نقشے کاغذ پر طغرے کی صورت میں بنائے جاتے ہیں تاکہ گھر میں دیواروں پر آویزاں کئے جائیں، جن سے برکت کے ساتھ زینت بھی حاصل ہو۔ اور نقشے اگر یوں ہی زمین پر ڈال دیے جائیں تو لوگ اس کو توہین تصور کرتے ہیں، ان کو روندنا یا ان پر بیٹھنا تو دور کی بات ہے۔

پس اولاً ہمارے نزدیک ایسے مصلے استعمال ہی نہ کرنا چاہئے جن پر اس قسم کی مقدس شبیہیں بنی ہوں۔

ذٰلِكَۗ-وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ [الحج: ٣٢]

حکم ربانی ہے اور یہ فرش اور پچھونے ابتذال اور تعاون کی جگہ ہے۔

ہدایہ میں ہے:

ولو كانت الصورة على وسادة ملقاة أو على بساط مفروش لا يكره " لأنها تداس وتوطأ بخلاف ما إذا كانت الوسادة منصوبة أو كانت على السترة لأنه تعظيم لها [المَرْغِيناني ,الهداية في شرح بداية المبتدي ,1/65، دار احياء التراث، بيروت، لبنان]

اور بسا اوقات اس کا مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ مصلی پر بے خیالی میں بیٹھ گئے تو خاص شبیہ پر بیٹھ گئے۔ وہی مصلیٰ منبر پر بچھا دیا جاتا ہے اس وقت بھی یہی ناگوار صورت پیش آتی ہے۔ مقرروں کی تقریر کی کرسی پر لوگ بچھا دیتے ہیں تو مقرر صاحب یا تو اس مبارک شبیہ پر بیٹھتے ہیں یا اس سے پیٹھ لگا کر تقریر کرتے ہیں، یہ دونوں صورتیں بے ادبی کی ہیں۔

اور کہیں کے لوگ ایسے بادب اور سلیقہ مند ہوں کہ مصلے کو اس قسم کی بد خیالی اور بے ادبی سے بچائیں، صرف نماز کے لیے بچھائیں پھر اٹھا کر کسی بلند جگہ رکھیں تو بھی وہ مصلی رکھیں جس کے نصف بالائی حصہ پر ایسی شبیہیں بنی ہوئی ہیں۔ جن مصلوں کے پورے حصہ پر یہ شبیہیں بنی ہوں ان پر پاؤں رکھنے یا پشت لگانے سے پرہیز کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ:
(بحر العلوم) مفتی عبد المنان صاحب علیہ الرحمہ

[فتاویٰ بحر العلوم، ج: 1، ص: 156 - 158]

واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.