Headlines
Loading...
فجر و عصر کے بعد مصافحہ کرنا کیسا ہے؟

فجر و عصر کے بعد مصافحہ کرنا کیسا ہے؟

Fatwa No. #219

سوال: عصر و فجر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا کیسا ہے؟ جب کہ امام اعظم کے نزدیک مکروہ ہے اور امام شافعی کے نزدیک مستحب ہے، پھر امام اعظم کے ماننے والے کیوں کرتے ہیں؟

دوسرے حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے اور بدعت حرام ہے۔ اس لیے حضرت سے گزارش ہے کہ مع حوالہ احادیث کریمہ اور اقوال فقہائے شریعت عظیمہ کے جواب جلد عنایت فرمائیں۔ بینوا توجروا
المستفتی: محمد نواب علی سانگا نیرج پور (راجستھان)

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

در مختار میں ہے:

(كالمصافحة) أي كما تجوز المصافحة لأنها سنة قديمة متواترة لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من صافح أخاه المسلم وحرك يده تناثرت ذنوبه» وإطلاق المصنف تبعا للدرر والكنز والوقاية والنقاية والمجمع والملتقى وغيره يفيد جوازها مطلقا ولو بعد العصر وقولهم إنه بدعة أي مباحة حسنة كما أفاده النووي في أذكاره وغيره في غيره وعليه يحمل ما نقله عنه شارح المجمع من أنها بعد الفجر والعصر ليس بشيء توفيقا فتأمله. [الحصكفي، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,6/381]

ترجمہ: مصافحہ جائز ہے اس لیے کہ یہ قدیم سنت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہوتی چلی آتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو اپنے بھائی سے مصافحہ کرے اور ہاتھ کو حرکت دے اس کے گناہ جھڑتے ہیں۔ مصنف نے مصافحہ کو مطلقاً جائز لکھا کسی وقت کی تخصیص نہیں کی کہ فلاں وقت جائز اور فلاں وقت نہیں اور یہ مسئلہ فقہ کی اور کتابوں، مثلا کنز الدقائق، وقایہ، نقایہ، مجمع الانہر منتقی الا بحر وغیرہ میں اسی طرح ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ عصر کے بعد بھی جو مصافحہ کیا جائے وہ جائز ہے اور جن لوگوں نے اس کو بدعت کہا ہے ان کا مطلب بدعت حسنہ مباحہ ہے جیسا کہ امام نووی نے اپنی کتاب اذکار میں تحریر کیا ہے۔ یہی مطلب ہے شارح مجمع کی بات کا کہ عصر و فجر کے بعد مصافحہ کچھ نہیں یعنی فرض یا واجب نہیں۔

تو فقہ حنفی کی مشہور اور متداول کتابوں میں تو یہ لکھا ہے کہ مصافحہ مطلقاً جائز ہے، یعنی کسی وقت کی تخصیص نہیں کہ صرف فلاں وقت جائز اور فلاں وقت نہیں۔ مصافحہ جب کرو جائز ہے تو یہ خبر آپ کو کہاں سے مل گئی کہ امام اعظم کے نزدیک مکروہ ہے۔

جس نے آپ سے کہا اس سے پوچھیے کہ کسی کتاب میں یہ روایت ہے کہ عصر کے بعد مصافحہ کو امام اعظم نے مکروہ فرمایا؟ اگر یہ روایت وہ آپ کو نہ دکھا سکے تو جھوٹے کے منہ پر تھوک دیجیے۔

اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ جس نے اس کو بدعت کہا اس کی مراد بدعت حسنہ مباحہ ہے تو اس کو حرام کیسے کہتے ہیں؟ جو لوگ حرام ہونے کے مدعی ہیں، ان سے کہیے کہ جس طرح حلال ہونے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اسی طرح حرام ہونے کے لیے بھی۔ اگر تم میں ذرا بھی غیرت ہو تو کوئی ایک صحیح حدیث ہی دکھا دو جس میں یہ حکم ہو کہ عصر کے بعد مصافحہ حرام ہے، اور اگر وہ یہ نہ دکھا سکیں اور ہرگز نہ دکھا سکیں گے تو کس منہ سے اس کو حرام کہتے ہیں؟

ہم نے حدیث شریف بھی روایت کی کہ مسلمان سے مصافحہ کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اور اسی حدیث کی روشنی میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب در مختار کی عبارت بھی پیش کر دی کہ عصر کے بعد مصافحہ جائز ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ:
(بحر العلوم) مفتی عبد المنان صاحب علیہ الرحمہ

[ملتقطاً، فتاویٰ بحر العلوم، ج: 1، ص: 151]

واٹس ایپ گروپ جوائن کریں

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.