Headlines
Loading...
کیا عاشورہ کے دن توسع علی العیال والی روایت موضوع ہے؟

کیا عاشورہ کے دن توسع علی العیال والی روایت موضوع ہے؟

Question S. No. #90

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا عاشورا کے دن توسع علی العیال (بچوں کے خرچ میں کشادگی) والی روایت موضوع ہے؟

سائل:

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الجواب:

حدیث پاک میں ہے:

جو عاشورا کے دن اپنے بچّوں کے خرچ میں فَراخی (یعنی کشادگی) کرے گا تو اللہ پاک سارا سال اس کو فراخی دے گا۔

اس حدیث پاک کو کثیر کتب احادیث میں بیان کیا گیا ہے، جس پر ہمیشہ سے مسلمانوں کا عمل بھی رہا ہے، مگر آج کچھ رافضی خیال لوگ اسے موضوع ثابت کرنے میں لگے ہیں، حالاں کہ بعض محدثین نے اسے صحیح و حسن قرار دیا ہے اور بعض نے موقوف جبکہ بعض نے ضعیف کا قول کیا ہے۔

المواهب اللدنية، شرح الزرقانی علی المواہب، مرقات اور المقاصد الحسنہ وغیرہ میں اس حدیث پاک کے تحت ہے:

قال العراقي في أماليه: لحديث أبي هريرة طرق، صحح بعضها ابن ناصر الحافظ.

وأورده ابن الجوزي في الموضوعات من طريق سليمان ابن أبي عبد اللَّه عنه، وقال: سليمان مجهول.

وسليمان ذكره ابن حبان في الثقات، فالحديث حسن على رأيه. قال: وله طريق عن جابر على شرط مسلم، أخرجها ابن عبد البر في الاستذكار من رواية أبي الزبير عنه، وهي أصح طرقه.

ورواه هو والدارقطني في الأفراد بسند جيد، عن عمر موقوفا عليه. [السخاوي، شمس الدين، المقاصد الحسنة، ٦٧٥/١]

امام جلال الدین سیوطی رحمة الله عليه اپنی کتاب "الدرر المنتثرۃ" میں اس حدیث پاک کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

هو ثابت صحيح. [الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة، صفحة ١٨٦]

امام بیہقی رحمة الله عليه نے شعب الایمان میں اسے چار طرق سے نقل فرمایا ہے، اور آگے فرماتے ہیں:

هَذِهِ الْأَسَانِيدُ وَإِنْ كَانَتْ ضَعِيفَةً فَهِيَ إِذَا ضُمَّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ أَخَذَتْ قُوَّةً، وَاللهُ أَعْلَمُ. [البيهقي، أبو بكر، شعب الإيمان، ٣٣٣/٥]

امام ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه "لسان المیزان" میں فرماتے ہیں:

قال الدارقطني منكر من حديث الزهري وإنما يروي هذا من قول إبراهيم بن محمد عن يعقوب بن خرة وضعيف. [ابن حجر العسقلاني، لسان الميزان، ٣٠٧/٦]

علامہ علی قاری رحمة الله عليه "الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة" میں اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

قُلْتُ لَا يَلْزَمُ مِنْ عَدَمِ صِحَّتِهِ ثُبُوتُ وَضْعِهِ وَغَايَتُهُ أَنَّهُ ضَعِيفٌ. [الملا على القاري، الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، صفحة ٤٧٤]

اسی حدیث کے بارے میں حضرت سفیان ثوری رحمة الله عليه نے تو یہاں تک فرمایا کہ یہ مجرب ہے، جیسا کہ مشکوۃ المصابیح میں ہے:

قالَ سُفْيَانُ: إِنَّا قَدْ جربناه فوجدناه كَذَلِك. [التبريزي، أبو عبد الله، مشكاة المصابيح، ٦٠١/١]

مذکورہ شواہد سے واضح ہو گیا کہ حدیث بالکل درست ہے اور اس پر عمل کرنا بھی جائز بلکہ فضیلت کا حامل ہے۔

اور رہی بات یہ کہ جنہوں نے موضوع کہا پھر اس کا کیا؟

تو واضح رہے کہ بعض اوقات حدیث موضوع ضرور ہوتی ہے مگر معنی حدیث صحیح ہوتا ہے، اسی طرح بعض اوقات ایک سند سے حدیث موضوع ہوتی ہے مگر دیگر اسناد سے صحیح، حسن یا ضعیف ہوتی ہے۔

علامہ علی قاری رحمة الله عليه الأسرار المرفوعة میں فرماتے ہیں:

ثمَّ اعلم أَنه قد يكون الحَدِيث مَوْضُوعا بِحَسب المبنى وَإِن كَانَ صَحِيحا مطابقا للْكتاب وَالسّنة بِحَسب الْمَعْنى. [الملا على القاري، الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، صفحة ٧٤]

ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:

مَا اخْتلفُوا فِي أَنه مَوْضُوع تركت ذكره للحذر من الْخطر لاحْتِمَال أَن يكون مَوْضُوعا من طَرِيق وصحيحا من وَجه آخر [الملا على القاري، الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة، صفحة ٧٣]

ایسی ہی ایک حدیث کے تعلق سے میزان الاعتدال میں ہے:

إبراهيم بن موسى المروزي عن مالك، عن نافع، عن ابن عمر حديث: طلب العلم فريضة. قال أحمد: هذا كذب، يعنى بهذا الإسناد، وإلا فالمتن له طرق ضعيفة. [الذهبي، شمس الدين، ميزان الاعتدال، ٦٩/١]

لہذا کسی ایک سند کو دیکھ کر نفس حدیث ہی کو موضوع قرار دینا اس کو کیا نام دیا جا سکتا؟

قارئین اپنے اپنے ذوق کے مطابق نام خود ہی دے لیں۔

اب یہاں یہ اعتراض نہیں ہوتا کہ جب محدیثین نے اسے ضعیف قرار دے دیا تو پھر اس پر عمل کیسے جائز ہو گیا ؟ کیونکہ تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ باب فضائل میں ضعیف احادیث پر بھی عمل جائز ہے۔

"شرح مشکوٰۃ للطیبی" اور "الفتح المبين" میں ہے:

وقد اتفق العلماء على جواز العمل بالحديث الضعيف في فضائل الأعمال. [الطيبي، شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن، ٧٠٧/٢] [ابن حجر الهيتمي، الفتح المبين بشرح الأربعين، صفحة ١٠٧]

اسی طرح فتح القدیر میں ہے:

فَالضَّعِيفُ غَيْرُ الْمَوْضُوعِ يُعْمَلُ بِهِ فِي فَضَائِلِ الْأَعْمَال. [الكمال بن الهمام، فتح القدير للكمال ابن الهمام، ٣٤٩/١]

اگر صحیح و حسن کا کوئی قول نہ بھی ہوتا تو بھی ضعیف حدیث ہونے کی بناء پر عمل جائز رہتا مگر یہاں تو صحیح اور حسن کے اقوال بھی موجود، اس کے باوجود موضوع کا حکم لگانا اور امت مسلمہ کو اس پر عمل کرنے سے روکنا، کیا حدیث میں خیانت کرنا نہیں؟

کیا وہ علماء و محدثین بھی خارجی ناصبی ہو گئے جنہوں نے اس حدیث کو بیان فرمایا بلکہ مجرب بھی بتایا؟

اللہ تعالیٰ ایسے خائن لوگوں سے اہلسنت کو محفوظ رکھے۔
كتبه: بلال رضا عطاری
متعلم: جامعۃ المدینہ، نیپال
۱۱ محرم الحرام ۱۴۴۳ھ

0 آپ کے تاثرات/ سوالات:

Kya Aap Ko Malum Hai? Al-mufti Ke Tamam Fatawa Haq Aur Sahi Hain, Zimmedar Muftiyane Kiram ki Nigrani Men Jari Kiye Jate hain aur Bila Jhijak Amal Ke Qabil Hain, Aap Se Guzarish Hai Ke Al-mufti Ke Fatawa Zyada se zyada Share Karen Aur Sawab Ke Mustahiq Bane.