Question S. No. #16
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال یہ یے کہ ایک گاؤں میں دو مسجدیں ہیں ایک جامع اور ایک پنجوقتہ، اس پنج وقتہ مسجد میں جمعہ قائم کرنے کی کوئی صورت ہے؟
المستفتی: بلال رضا عطاری، کشمیر
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الجواب بعون الملک الوهاب:
امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے مروی ایک روایتِ نادرہ کے مطابق بڑے دیہات میں جمعہ جائز ہے اس زمانے میں اسی روایتِ نادرہ پر جوازِ جمعہ کا فتویٰ دیا جاتا ہے ، لیکن جب ایک جگہ پہلے سے جمعہ قائم ہے تو اب دوسری مسجد میں جمعہ قائم نہ کیا جائےـ
امام ابو یوسف کی روایت نادرہ کو اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے اس طرح نقل فرمایا:
ایک روایت نادرہ امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے یہ آئی ہےکہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہوسکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انھیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحتِ جمعہ کےلئے شہر سمجھی جائے گی ۔
امام اکمل الدین بابرتی عنایہ شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں:
(وعنه) أي عن أبي يوسف (أنهم إذا اجتمعوا) أي اجتمع من تجب عليهم الجمعة لا كل من يسكن في ذلك الموضع من الصبيان والنساء والعبيد لأن من تجب عليهم مجتمعون فيه عادة. قال ابن شجاع: أحسن ما قيل فيه إذا كان أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد آخر للجمعة [البابرتي ,العناية شرح الهداية ,2/52]
(فتاویٰ رضویہ شریف غیر مترجم ج ۳ ص ۷۰۲ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف)
لہذا سوال میں موجود گاؤں کی آبادی اور کیفیت اگر امام ابو یوسف کی روایت نادرہ کے مطابق ہے تو وہاں جمعہ جو کہ جامع مسجد میں ہوتا ہے وہ درست ہے اور اگر اس روایت نادرہ کے مطابق نہیں ہے تب بھی روکا نہ جاے کہ علما نے انھیں روکنے سے منع فرمایا ہے۔
لیکن ایک جگہ جب جامع مسجد میں جمعہ قائم ہے تو پنج وقتہ مسجد میں از سر نو جمعہ قائم نہ کیا جاے کہ ایک تو اصل مذہب اور ظاہر الروایہ کے اعتبار سے دیہات میں جمعہ درست ہی نہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
"جمعہ و عیدین دیہات میں نا جائز ہیں اور ان کا پڑھنا گناہ مگر جاہل عوام اگر پڑھتے ہوں تو ان کو منع کرنے کی ضرورت نہیں کہ عوام جس طرح اللہ و رسول کا نام لے لیں غنیمت" (فتاویٰ رضویہ شریف غیر مترجم ج ۳ ص ۷۱۹ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف)
اور دوسرا یہ کہ جمعہ جامعِ جماعات کو کہتے ہیں جوکہ جگہ جگہ جمعہ قائم کرنے سے حاصل نہیں ہوگا، خود شہروں میں تعدد جمعہ پر متقدمین کا اختلاف رہا پھر متاخرین نے ضرورت کے پیش نظر اسے جائز قرار دیا اور گاؤں دیہات میں جگہ جگہ جمعہ قائم کرنے کی حاجت نہیں ہوتی ـ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
لما ابتلي أهل مرو بإقامة الجمعتين فيها مع اختلاف العلماء فی جوازهما أمو أئمتهم بالأربع بعدها حتما احتیاطا اھ. ونقله كثير من شراح الھداية وغيرها وتداوله۔
جب اہل مرو کو دو جمعوں کا قیام پیش آیا علماء نے متعدد جمعہ میں اختلاف کیا تو ائمہ نے لوگو پر جمعہ کے بعد احتیاطاً چار رکعات ظہر ادا کرنا لازمی قرار دے دیا اھ اکثر شارحین ہدایہ وغیرہ نے اسے نقل کیا اور اسے ہی متد اول قرادیا ـ (فتاویٰ رضویہ شریف ج ۳ ص ۷۰۵ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف)
ہاں متاخرین نے تعدد جمعہ کو جائز قرار دیا مگر حتی الوسع ایک پر اکتفا کرنے کا حکم دیا ہے
اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:
جہاں جمعہ جائز ہے وہاں نماز جمعہ متعدد جگہ ہونا بھی جائز ہے اگر چہ افضل حتی الوسع ایک جگہ ہوتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۳ ص ۶۸۷،۶۸۸ مطبوعہ نوری دارالاشاعت بریلی شریف )
لہذا پنچ وقتہ نماز والی مسجد میں جمعہ قائم نہ کریں۔
واللّٰه تعالیٰ أعلم علمه جل مجده أتم و أحكم
كتبه:
احتشام الحق رضوی مصباحی
۱۰/شوال المکرم ۱۴۴۲ ھ مطابق ۲۳/مئی ۲۰۲۱
0 آپ کے تاثرات/ سوالات: